اکیسویں صدی کے افسا نے میں تغیر پذیر سماجی اقدار ۔۔۔ ڈاکٹر اسلم جمشید پوری

 بدلتے زمانے کے ساتھ ساتھ ہر شئے تغیر پذیر ہوتی جاتی ہے۔ ادب سماج کا عکاس ہو تا ہے لہٰذا سماج کی تبدیلی کے اثرات تو ادبی تخلیقات میں دکھائی دیتے ہیں۔ سماج در اصل انسانی گروہ کے اعمال و افعال کا آئینہ ہو تا ہے۔ سماج کی اپنی راہیں ہوتی ہیں۔ صحیح و غلط کے پیمانے ہوتے ہیں۔ اچھی باتیں اور اچھے کام سماج میں سکون، اطمینان، خوش حالی اور امن و امان کے قیام کا سبب بنتے ہیں۔ اس کے بر عکس غلط باتیں اور غلط کام سماج میں خلفشار، انتشار، بد امنی اور تشدد کا ذرےعہ بنتے ہیں۔یہی سبب ہے کہ ہمارا سماج اپنے رہنے وا لوں پر بعض شرائط اورپابندیا ں عائد کرتا ہے جن کے پورا کرنے کا معاملہ غیر مو کدہ نہیں ہے کہ آپ ادا کریں گے تو اچھا نہیں تو کوئی بات نہیں بلکہ با لکل مو کدہ کی طرح پورے علاقے، محلے، سماج پر عائد ہوتی ہیں کہ ان کے کرنے سے امن و امان کا قیام، ماحول کو بہتر بناتا ہے جب کہ عائد پابندیوں کی خلاف ورزی، معاشرے میں بے اطمینانی اور اضطراب پیدا کر نے کا عمل ہے۔
جیسے جیسے زمانہ بدلا،صدی تبدیل ہوئی۔ بیسویں صدی قدیم شمار ہونے لگی اور اکیسویں صدی کو نئی صدی کہا جانے لگا۔ صدی کی تبدیلی بہت بڑی تبدیلی ہو تی ہے۔ دو نوں صدیوں کے درمیان کا.8-10 سال کا عرصہ یعنی1995ءس2005ءتک زمانہ عجیب زمانہ ہو تا ہے۔ یہ زمانہ تغیر کا راست اثر لیتا ہے۔ یہی وہ زمانہ ہے جو دونوں صدیوں کے درمیان رابطے کا ذریعہ ہو تا ہے۔ اسی زمانے میں تغیر و تبدل سماج کو متھنے، حلول پذیر ہونے کا مو قع فرا ہم کرتا ہے۔
صدی کی تبدیلیاں[مثبت و منفی سماج کو اپنے دائرے میں لے لیتی ہیں۔ سماج کی بعض اقدار تو اس قدر تیزی سے تغیرپذیر ہو تی ہیں کہ یہ علم ہی نہیں ہو پاتا کہ یہ کب جائز نہیں تھی اور کب ان کو نہ صرف جائز بلکہ ضروری قرار دے دیا گیا۔
اکیسویں صدی کی ابتدا سے قبل ماہرین کمپیوٹر کا خیال تھا کہ کمپیوٹرCollapsکر جائے گا ،سارے اعداد و شمار زیرو ہو جا ئیں گے اور کمپیوٹر کے سبب جدید آلات۔ نقل و حمل کے ذرائع خصوصا ّہوائی جہاز وغیرہ،مشینیں، کمپیوٹر کا استعمال کر نے وا لے سارے شعبے اچا نک کام کرنا بند کردیں گے۔ یہ مانا جا رہا تھا کہ یہ نئی صدی کوئی بڑی آ فت لے کر آ نے وا لی ہے۔ یہی نہیں بین الاقوامی شہرت یافتہ کئی نجو میوں نے اعلان کردیا تھا کہ2012ءمیںقیا مت بھی آ نے وا لی ہے۔ لہٰذا بیسویں صدی کے اوا خر میں نئی ٓصدی کے خطرات اور خدشات سے انسانی دل کمزور ہونے لگے تھے۔ انسان کلون کی ایجاد سے لے کر کمپیوٹر کی زندگی کے ہر شعبہ پر قبضہ کر لینے تک نے نئی صدی کو ایک مختلف عہد کے طور ر پیش کیا ہے۔ انسانی سماج میں بے انتہا تغیر آ یا۔انسانی معاشرہ بھی مشینی ہو تا چلا گیا۔ جذ بات، رشتے، تعلق، پڑوس، معاشرہ، سماج وغیرہ کا پاس اور احترام ختم ہو تا گیا۔ اپنی بات، اپنا فےصلہ اوراپنا اقدام صحیح اور بہتر، جب کہ دوسرے کی ہر بات غلط۔ یہیں سے خود پرستی کی ابتدا ہو تی ہے۔ خود پرستی سے فرقہ پرستی، علاقہ پرستی اور مذہب پرستی سماج میں برق رفتاری سے پھیلنے لگتی ہے۔ اکیسویں صدی کی ابتدا کو ابھی محض13 سال کا قلیل عرصہ گذرا ہے۔لیکن تبدیلی اور تغیر نے اکیسویں صدی کی جو شبیہ پیش کی ہے وہ عجیب و غریب ہے۔ اکیسویں صدی کے اسی عرصے میں سماج میں ایسی ایسی تبدیلیاں واقع ہوئی ہیں جنہیں کم کر کے دیکھنا غیر دانش مندی ہے۔ بظا ہر ایسا لگتا ہے کہ بعض تبدیلیاں تو بیسویں صدی سے ہی وقوع پذیر تھیں۔یہ سچ ہے لیکن بیسویں صدی کا اوا خر ہو یا اکیسویںصدی کا اوائل، سماج تغیر و تبدل کے غیر معمو لی دور سے گذر رہا ہے۔سماج میں در آ نے وا لی ان تبدیلیوں کو ذیل میں بہ آ سانی سمجھا جا سکتا ہے۔ پھر جہاں تک سماج کی عکاسی کا ادب سے تعلق ہے تو یہ بات سب جانتے ہیں کہ ادب سماج کا آئینہ ہو تا ہے اور جہاں تک اکیسویں صدی میں افسا نے کا معاملہ ہے تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ اکیسویں صدی کی بمشکل تمام ساڑھے تیرہ سال کی مدت میں سماج میں جو تغیرات رو نما ہو ئے ہیں وہ حیرت انگیر ہیں۔
2000ءسے2014ءکے وسط تک اردو میں جو افسا نہ لکھا جا تا رہا ہے اسے ہم دو واضح زمروں میں تقسیم کرسکتے ہیں۔
I۔    اکیسویں صدی میںاپنا افسانوی سفر شروع کرنے وا لے افسا نہ نگار جن میں اس مدت میں شا ئع ہونے وا لے افسا نہ نگار اور اس مدت میں پہلا افسا نوی مجمو عہ شائع ہونے وا لے افسا نہ نگار شامل ہیں۔
II۔    دوسرا زمرہ ایسے افسا نہ نگاروں کا ہے جو2000ءسے قبل افسا نوی دنیا میں مقبول ہو چکے تھے اور جو عمر کی آخری منزل پر ہوں۔
لیکن یہاں دوسرے زمرے کے افسا نہ نگاروں کے بجائے صرف زمرہ اول کے افسا نہ نگاروں کے افسا نوں پر گفتگو ہوگی۔ در اصل اکیسویں صدی نے انسانی سماج پر جو اثرات مرتسم کیے وہ خاصے پھیلے ہوئے ہیں۔ اس عہد میں پہلے سے رائج کئی طرح کی سماجی کیفیت و حالت اور تغیر کو شدت بخشنے کا کام کیا ہے اور بعض نئی چیزیں سامنے آئی ہیں۔ مثلا عالمی تشدد، فرقہ پرستی، علا قائیت، ذات، برادری وار، مذہبی حب الوطنی، دہشت گردی، مذہبی دہشت گردی، جنسی تفریق، فسادات، فطرت کا تحفظ، سماجی اقدار کی شکست و رےخت، اخلاق کا انحطاط۔یہ اور اس جیسی متعدد لفظیات اور اصطلاحیں ہیں جو آج نہ صرف رائج ہیں بلکہ انہوں نے سماج کے تہذیبی جسم اور ثقافتی اقدار کو بدل کر رکھ دیا ہے۔ اکیسویں صدی کے اردو افسا نے نے سماج میں رو نما ہو نے وا لے ان تغیرات کو بخو بی پیش کر نے کا کام کیا ہے۔
اکیسویں صدی کے سماج کو ہمارے افسا نہ نگاروں نے بحسن و خوبی پیش کیا ہے۔ شوکت حیات، بشیر مالیر کوٹلوی مشرف عالم ذوقی، ترنم ریاض، نگار عظیم،، ایم مبین، اشتیاق سعید، فراق مرزا، شائستہ فا خری، ذکیہ مشہدی، اختر آزاد، ابرار مجیب، افشاں ملک، رینو بہل، مسرور تمنا، سلمیٰ صنم، نور الحسنین، خورشید حیات، مظہر سلیم، پرویز شہر یار، مہتاب عالم پرویز، مہ جبیں نجم، کہکشاں روین، غزا لہ قمر، رخشندہ مہدی، شا ہد اختر، مجید احمد آ زاد، احمد صغیر، اقبال مہدی، سیدہ نفیس بانو شمع، شکیل جاوید۔ قمر قدیر ارم۔ نصرت شمسی، عذرا نقوی، قاسم خورشید، اشفاق برادر، معین الدین عثمانی، فرقان سنبھلی، وسیم حیدر ہاشمی، تسنیم فاطمہ۔ تبسم فا طمہ اور دیگر کے یہاں اکیسویں صدی کے سماج کا تغیر اور تبدل عمدگی سے موضوع کے سانچے میں ڈھل کر فن کی آنچ سے پگھل کر افسانے کی شکل میں سامنے آ گیا ہے۔
درج بالا مو ضو عات ہی نہیں اکیسویں صدی میں انسانی کلون، سائنسی ترقیات اور الیکٹرونکس کا ہر دم وسیع ہو تا جہاں ۔اور ان سب کے نتائج کے طورپر رشتے نا طوں، آپسی میل جول، پڑوس ، معاشرہ، سماج، ملک۔یہ سب کس طرح سے زندگی میں نہ صرف معنی بدل رہے ہیں بلکہ ان کی ساخت تبدیل ہو رہی ہے۔منفی اقدار کس طرح اب مثبت اقدار میں تبدیل ہو رہے ہیں۔ اکیسویں صدی کا اردو افسا نہ ان سب کو فن کا ری کے ساتھ اس طور پیش کرتا ہے کہ سماج کو آئینہ بھی دکھاتا ہے اور فن افسا نہ کے تقا ضوں کا بھی خیال رکھتا ہے۔
سماجی اقدار کا زوال :
ہر سماج اپنے رہنے وا لوں پر کچھ پابندیاں اور کچھ بندشیں لگاتا ہے۔ حق، نا حق، جائزے، ناجائز، غلط۔ صحیح، کے پیمانے ہوتے ہیںسماج میں رہنے وا لے ہر فرد کو ان اصو لوں کو تسلیم کرنا پڑتا ہے ۔جو سماجی اقدار اور اصو لوں کے مطابق زندگی گذارتا ہے اسے اچھا آ دمی اور شریف کہا جاتا ہے اور جو ان اصو لوں کو بالا ئے طاق رکھ کر من موجی زندگی گذارتا ہے اسے سماج میں برا سمجھا جاتا ہے۔ ہر سماج کے اصول و ضوا بط اور صحیح و غلط کے معیار مختلف ہوتے ہیں۔ ایک بات ایک سماج میں پسندیدہ تصور کی جاتی ہے جب کہ وہی بات دوسرے سماج کے لیے معیوب ہو تی ہے ۔سماج کی اس تفریق کے مختلف اور متعدد اسباب ہوتے ہیں۔ فیشن ،ترقی و تنزلی، مذہب بے زاری اور مذہب پسندی، روایت کا احترام اور روا یت سے انحراف، احساسِ برتری اور احساسِ کمتری وغیرہ ایسے اسباب ہیں جن کے باعث مختلف سماجوں میں مختلف باتوں کے الگ الگ معیار ہوتے ہیں۔ شوکت حیات کا افسا نہ” میت“ سماجی اقدار کے زوال کا عکاس، خوبصورت افسا نہ ہے۔ افسا نہ میں آ مر درّانی، شہر کی مشہور و معروف سیاسی اور سماجی شخصیت ہے۔ اس کی بیوی کا انتقال ہوچکا ہے۔ رشتہ دار، تعلق دار، دوست ، احباب، آس پڑوس والے آ رہے ہیں۔ جنازہ گھر میں رکھا ہے۔ امام صاحب بھی آ چکے ہیں۔ گھر کے باہر گاڑیوں کی قطار لمبی ہو تی جا رہی ہے۔لیکن آمر درّانی تدفین کے لیے ابھی کچھ اور لوگوں ، خاص لوگوں کا انتظار کررہے ہیں۔بار بار شہر کے تمام معززین کا شمار کیا جاتا ہے کہ کون کون آیا، اور کون ابھی تک نہیں آیا ہے۔ صبح سے شام ہو نے کو آئی لیکن جنا زہ اٹھایا نہیں گیا ہے۔ امام صا حب پہلو بدل بدل کر تھک چکے ہیں لیکن آمر درانی چاہتے ہیں شہر کے سبھی لوگ آ جائیں، کاروں کا طویل قافلہ ہو۔وہ اپنی بیوی کی موت اور جنازے کو بھی سیاسی قوت کی شکل میں پیش کرنا چا ہتے ہیں۔
ہمارے عہد نے ہمیں اس مقام پر لا کھڑا کیا ہے۔ جہاں ہم کسی بھی بات کا سودا کر سکتے ہیں، جہاں ہم اپنی زندگی کے کسی بھی لمحے کو کیش کر سکتے ہیں، جہاں ہم فلمی دنیا کی طرح، ہر کام کی ایکٹنگ کررہے ہیں۔ کچھ بھی حقیقی نہیں۔ کو ئی رشتہ سچا نہیں۔ کو ئی جذبہ صحیح نہیں۔ بات صرف ایک فرد کی ہو تو وہ خراب ترین ہو نے کے با وجود نظر انداز کرنے لائق تو ہو تی ہے لیکن جب کسی بات کا تعلق ایک فرد نہیں، افراد،بلکہ پو رے سماج سے اور عا لم انسا نیت سے ہو تو پھر کیا ہوکہا نی ایک گھر کی ہی نہیں ہے، کہا نی میاں، بیوی اور اس کے دوست کی بھی نہیں ہے۔ کہا نی وقت کی بھی ہے جو کبھی نہیں رُکتاکہا نی پو رے سماج کی ہے جو کبھی جمود پذیر نہیں ہو تا۔ کبھی کسی کا خا صی مدت تک انتظا ر نہیں کرتا،لیکن وقت اور سماج دو نوں رکے ہو ئے ہیں۔ انتظار ہو رہا ہے۔
”مغرب کا وقت ہو نے وا لا تھا۔
آخر کیا سوچ رہے ہیں آمر درانی صا حبکن لوگوں کو انتظار ہے اب ان کوسر عاً تو صرف سگے رشتہ داروں کا انتظار کیا جا سکتا ہے، لیکن اس کی بھی ایک حد ہو تی ہے۔ منا سب وقت پر تدفین مستحسن ٹھہرتی ہے۔ اب مزید تاخیر منا سب نہیں۔
سو چوں میں مستغرق مو لا نا ظہر کے بعد سے لگاتار انتظار کرتے کرتے تھک چکے تھے۔ نقاہت چہرے سے جھلک رہی تھی۔ بدن سیدھا کرنے کا موقع نہیں ملا تھا۔ کمر اور کولہے کے درد سے بے چینی میں چھوٹی کرسی پر بار بار کروٹیں بدل رہے تھے۔گھٹنے بےٹھے بےٹھے جام ہو گئے تھے۔
بوجھل قدموں سے مو لانا دھیرے دھیرے چلتے ہوئے آمر درانی کے پاس آئے”جنازے کو رخصت کی اجازت دیجئے حضورابھی کئی مراحل طے کر نے ہیں۔تاخیر ہوتی چلی جارہی ہے!“
[میت،شوکت حیات، مجمو عہ گنبد کے کبوتر،ص70]
سماجی اقدار کی شکست و رےخت کا نو حہ، محمد بشیر مالیر کو ٹلوی کی کہانی’اہل کتاب‘ بھی ہے۔ یہ ایک مسجد کے امام افضال ملک اور ان کے بےٹے مظہر کی کہانی ہے۔ افضال ملک کی دو کنوا ری بےٹیاں اور بیمار بیوی ہے۔ مظہر بے رو زگاری سے پریشان غیر ممالک جانے کا ارادہ کر لیتا ہے۔ہالینڈ سے اس کے ایک دوست نے کام کا آ فر دیا۔ ایجنٹ سے چار لاکھ میں سودا طے ہوا۔ دو لاکھ ابھی اور دو لاکھ تنخواہ سے دینا ہے۔ افضال ملک کے لیے دو لاکھ بھی ناممکن ہے۔ نا چاہتے ہو ئے بھی جس مکان میں وہ رہ رہے ہیں اسے گروی رکھ کر دو لا کھ رو پے ایجنٹ کو دے کر مظہر ہا لینڈ چلا جاتا ہے۔ مظہر کی ماں بیمار پڑ تی ہے۔ مظہر پیسے بھیجتا ہے۔ بڑے اور اچھے اسپتال میں علاج ہوتا ہے۔ اسی دوران مظہر کے خطوط کا آنا رک جاتا ہے۔ دو ماہ تک کوئی خیر خبر نہیں۔ یہاں سب پریشان ہیں۔پھر ایک دن مظہر بتاتا ہے کہ وہ جس بیکری پر کام کرتا تھا، وہاں چھا پہ پڑا، پولس پکڑ کر لے گئی اور وہ دو ماہ جیل میں بند رہا۔ اس کے دوست نے ضمانت لی۔ ہر قدم پر مدد کی۔ اس دوران مظہر، اپنے وا لد سے اپنی شادی کی بات کہتا ہے۔ والد کہتے ہیں۔بےٹے لڑ کی مسلمان ہو۔ صوم و صلوة کی پابند ہو۔ کم از کم اہل کتاب ضرور ہو۔ اہل کتاب سے نکاح جائز ہے۔ مظہر فون پر بتاتا ہے کہ اس نے شادی کر لی اور یہ کہ وہ اہل کتاب ہے لیکن مظہر جب اس کا نام ڈیسوزا بتاتا ہے۔ ڈیسو زا اس کا دوست، جس نے اسے ہر مصیبت سے بچایا۔ وہی ڈیسوزا۔ مولا نا افضال ملک کے پیروں تلے کی زمین نکل جاتی ہے۔ محمد بشیر مالیر کو ٹلوی نے عمدگی سے کہانی کے تانے بانے بنے ہیں کہانی کا آخری منظر ملا حظہ کریں:
”بھئی!وہ!ہماری بہو دیکھنے میں خوبصورت ہے نا!؟
مظہر نے جواب دیا”جی!ابو!“
آنکھیں گھما کر، تھو ڑا سہم کر پھر سوال کیا” وہ اہل کتاب تو ہے نا!“
جواب پھر دو لفظوں میں ملا”جیابو“
وہ ساری خوشیاں الفاظ میں سمیٹ کر بو لے” ارے خوش کردیا بےٹےاب جلدی سے بہو کا نام بتا!!“
مظہر خاموش تھا، وہ دل ہی دل میں دلہن کے مسلمان ہو نے کی دعا مانگنے لگے۔
” میاں جلدی بتاﺅ!یہاں دل اچھل کر حلق میں آنے کو ہے!!“
وہ بے صبری سے بو لے۔
دوسری جانب مظہر رو ہانسا ہو کر بو لا اس کا اس کاناممائیکل ڈیسوزا!!
[ اہل کتاب، مجمو عہ چنگاریاں، محمد بشیر مالیر کوٹلوی ،ص[21-22
اخلا قی زوال :
موجودہ صدی میں اخلا ق و کردار کا کوئی معیار نہیں رہ گیا ہے۔ صا حب اخلاق اور صا حب کردار لوگوں کی کمی میں اضا فہ ہو رہا ہے۔ غیر اخلا قی باتیں، فیشن کے نام پر جائز قرار دی جا رہی ہیں۔ اخلا قی زوال کے اسباب و علل پر غور کریں تو پھو ہڑ فلمیں اور ٹی وی کی دنیا، فیشن، دو لت کی بہتات، مذہب بے زاری سا منے آ تی ہے۔ گھر کے سبھی افراد ٹی وی کے شوز دیکھتے ہیں۔ ان میں آ ج کل پھو ہڑ او ر پھکڑ پن کے علاوہ عریانیت اور جنسیت کی بھرمار ہو تی ہے اور ہر روز نشر ہونے وا لے ایسے سیریل اور فحا شی پروسنے وا لے رئیالٹی شوز سے اخلاق و کردار پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ رضیہ فصیح احمد کا افسا نہ” ہنسی کی بات“ ایسا ہی ایک افسا نہ ہے۔
”ہنسی کی بات“ اخلا قی زوال کو لفظو ں کا جامہ پہنا نے وا لا ایک خو بصورت افسا نہ ہے۔ یہ افسا نہ بھی مغرب کی کھوکھلی قدروں کو بے نقاب کرتا ہے۔ پو را افسا نہ بڑے پانی کے جہاز کا افسا نہ ہے۔یہاں ایک جو ڑا ما ئیکل اور آر لین ہے۔راوی یعنی افسا نہ نگار بھی کہانی میں موجود ہے۔ جہاز میں پچا سوں کمرے ہیں، ریسٹو رینٹ ہے۔ لائبریری ہے۔ موج مستی کا سا را سا مان ہے۔ مائیکل سیاہ فام ہے اور آ رلین سفید۔ دو نوں کے جو ڑے کو سبھی حیرا نی سے دیکھتے ہیں۔ دو نوں کی زندگی بہت مختلف ہے۔ آر لین کو ہیرے جوا ہرات اور بیش قیمت پتھر خریدنے کا شوق ہے۔ نما ئش دیکھنے کا جنون ہے جب کہ مائیکل کو مچھلیوں کا بے حد شوق ہے۔ یہ مچھلیاں کم عمر لڑ کیاں ہیں۔ آر لین جانتی ہے پھر بھی بے پرواہ سی رہتی ہے اور یہ کہتی ہے اپنے اپنے شوق ہیں۔ را وی ایک بار لائبریری میں مائیکل کو ایک لڑ کی کے ساتھ لپٹے ہو ئے دیکھ لیتی ہے، آرلین سے بتا تی ہے۔ اس پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ آر لین جب راوی سے زیا دہ بے تکلف ہو جاتی ہے تو رازدارانہ طور پر ایک بات یہ کہتے ہو ئے بتاتی ہے کہ تم سن کر ہنسو گی:
”یہ جو میرے ساتھ کالیا ہے، یہ میرا شو ہر نہیں ہے، بوائے فرینڈ بھی نہیں ہے۔ کرا یہ بچا نے کے لیے ہم نے ایک کیبن لے لیا ہے۔ تمہیں تو معلوم ہے سنگل کا کرا یہ کتنا زیا دہ ہو تا ہے۔پھر کینےڈا کا ڈا لر بھی تمہارے امریکن ڈا لر سے ہلکا ہے، اس لیے ہمیں اور بھی مہنگا پڑ تا ہے۔“
اور جب راوی آرلین کو اس کے شو ہر کے کسی لڑ کی سے لپٹے ہونے کے بارے میں بتاتی ہے تو آرلین کا رد عمل کچھ یوں ہوتا ہے:
”بھئی میں نے تمہارے میاں کو دیکھا تھا ذرا “میں ہچکچائی۔
” ہاں ہاں کہو نا۔ کسی کے ساتھ بو سہ بازی میں لگا ہو گا۔ تو بھئی مجھے کیا۔ میرا میاں تو ہے نہیں اور دیکھو نا رات کو ایک کیبن میں سوتے ہیں۔ ہم نے یہ معاہدہ کر لیا تھا کہ ہینکی پینگی نہیں ہوگیاس لیے ڈےڑھ دو بجے آ کر چپ چاپ پڑ کر سو جاتا ہے۔اب دن میں بے چارہ یہ بھی نہ کرے! وہ پھر ہنسنے لگی۔“
[ورثہ اور دوسری کہانیاں: افسانہ ہنسی کی بات، رضیہ فصیح احمد،ص60]
افسا نے میں خاص بات یہ ہے کہ آرلین کے لیے جو بات ہنسی کی ہے وہ راوی کو ہنسا نہیں پاتی ہے۔ افسانہ نگار نے یہ فطری اظہار کیا ہے کہ اس کا تعلق تو مشرق سے ہے اور مشرقی تہذیب ایسی باتوں پر ہنسنے کی روادار نہیں۔ یہی فرق تو ہے جو مغرب اور مشرق کو الگ کرتا ہے کہ جو وہاں روا ہے، یہاں معیوب ہے، غیر مہذب ہے جس پر وہاں لوگ ہنستے ہیں وہ یہاں عبرت کی بات ہے۔ بہت ہی معنی خیز اور مو ثر افسا نہ ہے۔
طاہر نقوی کی کہانی” فاریسٹ آفیسر“بھی اس زمرے کی کہانی ہے۔ کہانی کا راوی یعنی صیغہ¿ وا حد متکلم کہانی کا مرکزی کردار” فاریسٹ آ فیسر“ ہے۔ اس کا تبا دلہ ایسی جگہ ہو جاتا ہے جہاں کئی بڑے بڑے، جنگلی بر آمدات کا ناجائز استعمال کرتے ہیں۔ ایسے لوگ بہت طا قت ور ہیں۔ فاریسٹ آ فیسر نے وہاں جا کر اپنی ایمانداری، رعب اور کردار سے سب کو چو نکا دیا ہے۔ لوگ اسے دھمکی دیتے ہیں۔ اس سے آ فس میں بھی اچھا سلوک نہیں ہو تا۔بالآخر فاریسٹ آفیسر کا سارا اخلاق، کچھ اس طرح زوال پذیر ہو تا ہے کہ وہ ڈک بنگلے کے چو کیدار کی بیوی کے حسن کے جال میں تھوڑی دیر کے لیے پھنستے ہیں اور جنگل کی لکڑیاں کاٹ لی جاتی ہیں۔ کہانی کا آخری حصہ ملا حظہ کریں:
”جب میں آفس سے ریسٹ ہاﺅس پہنچا تو نو ری میرے بےڈ روم کو ٹھیک کررہی تھی۔ اس نے مجھے مسکرا کر دیکھا۔ میں اس کے بدن کے نشیب و فراز میں کھو گیا۔ وہ میرے کمرے سے جاتے جاتے ٹھہر گئی۔ شا ید میری نظروں کا پیغام اس تک پہنچ گیا تھا۔وقت گزرنے کا احساس تک نہیں ہو نے پا یا۔ میرے پاس سے وہ گھبرا کر اٹھی اور فوراً غا ئب ہو گئی۔ نہا دھو کر حسب پروگرام میں سا ئٹ کی طرف چل دیا۔ وہاں پہنچ کر میں پریشان ہو گیا۔ بہت سا رے درخت کاٹے جا چکے تھے!!“
طا ہر نقوی نے بڑی فن کا ری سے فاریسٹ آ فیسر کی ایمانداری، سر کا ری رعب اور اصول پسندی کی کایا پلٹ کی ہے۔ یہ اخلا قی زوال ہی کا معا ملہ ہے کہ آج ہم کسی نہ کسی معا ملے میں خود کے کردار کو داغ دار کر لیتے ہیں۔
[فاریسٹ آفیسر، مجمو عہ کووں کی بستی میں ایک آ دمی، طا ہر نقوی، ص144،2010ئ]
”بیک ڈور“ مہتاب عالم پرویز کی ایک اچھی کہانی ہے جو اخلا قی زوال کی بہتر مثال ہے۔ جس میں ایک پروفیسر کی کہانی ہے جو اپنی ہی ایک طا لبہ سے مخرب اخلاق باتیں کرتا ہے۔ بات جان پہچان سے شروع ہوتی ہے اور پھر دوستی تک پہنچ جاتی ہے۔ اس کے آ گے کیا ہو تا ہے وہ آپ خود ملا حظہ کرلیں:
”روز ہی تو کسی نہ کسی بہانے آپ سے بات ہو تی ہی رہتی ہے۔ میری سہیلیاں جب بھی مجھے آپ کے سنگ باتیں کرتے ہوئے بھی دیکھتی ہیں تو آپ کے متعلق ڈھیر ساری باتیں کرتی ہیں اور میرے پاس سوا ئے خاموشی کے کچھ بھی تو نہیں رہتا۔
مس مو نا آپ کی سہیلیوں میں شاید رقا بت کا جذبہ کا ر فر ما رہتا ہے۔ وہ آپ سے بھی اور مجھ سے بھی جلنے لگی ہیں۔ دیکھئے آپ انکار نہ کریں ،اب آجا ئیں ورنہ ہم نا راض ہو جائیں گے۔
سہیلیاں ہماری کھسر پھسر پر کان لگائے ہوئے تھیں۔ میں انہیں بائے بائے کہتے ہو ئے پرو فیسر کے چیمبر میں داخل ہو گئی۔ چیمبر میں داخل ہو تے ہی پرو فیسر نے ڈور اندر سے لاک کر دیا تھا۔کافی پینے کا تو ایک بہا نہ تھا۔“
[بیک ڈور، مجمو عہ کارواں، مہتاب عالم پرویز،ص48،2012ئ]
جنسی بے راہ روی :
تغیر پذیر سماجی اقدار کا ایک عنصر جنسی بے راہ روی بھی ہے۔ سماجی قدروں کی شکست و رےخت کے سبب اخلاق و کردار میں زوال آ تا ہے اور اخلا قی زوال کی ترقی یافتہ شکل جنسی بے راہ روی ہے۔ یہ انسان کو، خاص کر نو جوا نوں کو تباہی کے دہانے تک پہنچا دیتی ہے۔ آج کل نئی نسل اس کاتیزی سے شکار ہو رہی ہے۔ اب شراب اور جنسیت عام ہو تی جارہی ہیں۔ یونیورسٹی، کالج اور اسکول کے بڑے طا لب علم اس کا شکار ہو کر اپنا کرئیر تک خراب کرلیتے ہیں۔ پہلے یہ وبا مغرب میں ہی عام تھی، اب تو یہ مشرق اور ہندوستان میں بھی اپنی جڑیں مضبوط کررہی ہیں۔ عذرا نقوی نے اپنے افسانے” الٰہی یہ جلسہ کہاں ہو رہا ہے“ میں خوبصورتی سے دکھانے کی کوشش کی ہے کہ جنسی بے راہ روی نے آج اپنا جال اس قدر وسیع کرلیا ہے کہ اب تعلیم گاہیں، عبادت گاہیں اور مذہبی جلسے جلوس کی جگہیںکوئی جگہ بھی ایسی نہیں ہے جہاں یہ سب نہیں ہو رہا ہے۔ عذرا نقوی نے محرم کی آٹھویں تارےخ میں امام باڑے میں منعقد ہو نے والی مجلس کی عمارت کے آس پاس دنیا و مافیہا سے بے گانے، بوڑھے اور نوجوا نوں کی بے راہ روی کو پیش کیاہے۔ ایک طرف ایک بو ڑھا شراب کے نشے میں ہر آنے جانے وا لی خا تون کو عجیب نظروں سے دیکھ رہا ہے تو دوسری طرف ایک لڑ کی اور ایک لڑکا بوس کنار میں مصروف ہیں:
”سامنے سے آ تا ہوا ایک بوڑھا جو نشے میں دھت لگتا تھا مجھ سے ٹکرا گیا۔ کاغذ میں لپٹی بیئر کی بو تل اس کے ہاتھ میں تھی۔ بڑے میاں نے سر سے ہیٹ اتار کر مسخرے انداز میں سینے پر رکھا اور جھک کر فرنچ میں بولا
”سوری مادامایک سِپ آپ جیسی خوبصورت خاتون کے لیے“
اور اس نے منہ سے بیئر کی بوتل لگائی۔ باقی ماندہ بیئر اس نے غٹا غٹ گلے میں انڈیل لی۔ گاڑی کے قریب پہنچی تو دیکھا کہ ہما ری گا ڑی سے ٹیک لگائے ایک نو جوان جو ڑا دنیا سے بے خبر، ایک دوسرے میں کھویا ہواKissکررہا تھا۔ ہماری
آ ہٹ سن کر دو نوں نے سر اٹھایا۔ لڑکے نے انگریزی میں کہا:
”کتنی خوبصورت رات ہے۔“
دو نوں ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر مسکرائے۔ ہلکا سا اکKissکیا اور چل دیے۔“
]”الٰہی یہ جلسہ کہا ں ہو رہا ہے،مجمو عہ جب آنگن پردیس ہوا، عذرا نقوی، ص44،2013]
جنسی بے را وہ روی کا ایک کریہہ چہرہ اشتیاق سعید کے افسا نے” بعید از قیاس“ میں ملتا ہے۔ کہانی میں تسکین صدیقی مرکزی کردار ہے جو قصہ کے راوی الیاس کے پڑوس میں کرا ئے کے مکان میں رہتی ہے۔ایک چھوٹی بےٹی اس کے ساتھ، بڑی بےٹی کی شادی ہو چکی ہے۔ شو ہر سعودی عرب میں ملا زمت کرتا ہے ۔ہر دو سال پر چھٹی آتا ہے۔ایسے میں تسکین کو کبھی بھی تسکین نہیں ہو تی۔ وہ ادھر ادھر بہکنے لگتی ہے۔ الیاس صاحب پر ہر طرح سے ڈورے ڈالتی ہے۔ ایک منظر ملا حظہ ہو:
”الیاس صاحب دیکھئے، گلاس کو بھر نے کے لیے بو تل کو گلاس پر جھکنا پڑ تا ہے
یوں سمجھ لیجئے۔ یہاں مرد بوتل ہے اور گلاس عورت!“
”کیا “؟میں چو نک پڑا۔
چو نکئے مت۔مرد اور عورت کے مابین رشتے کی یہی حقیقت ہے
بو تل لبریز رہے اور گلاس خالی، تو بتائیے گلاس کے وجود کا کیا مطلب؟“
میں یک لخت اس کی بات کی تہہ تک پہنچ گیا اور اس کی آنکھوں کے گلشن میں، جہاں شہوت کے، بے شمار بھنورے بھنبھنارہے تھے۔ اپنی نگاہیں پیوست کرتے ہوئے اس کے ہاتھ سے بوتل لے کے ٹیبل پر ایک طرف کو رکھتے ہو ئے کہا۔ دیکھو یہ بوتل اگر گلاس سے بے حسی یا بے توجہی برتتی ہے تو گلاس کو بلا تامل اس بوتل سے استفا دہ کرنا چا ہیے۔“
[بعید از قیاس، حاضرغائب، اشتیاق سعید،ص52 ،2013ئ]
تسکین صدیقی کی بے راہ روی رنگ لائی اور ایک دن وہ ایک ہو ٹل میں کسی کے ہمراہ پکڑی گئی۔پتہ چلا کہ اس نے اپنی بےٹی کے حق پر ڈا کہ ڈا لا تھا۔ اشتیاق سعید نے عمدگی سے”بعید از قیاس“ تحریر کی ہے۔
فرقہ وارانہ تشدد :
اکیسویں صدی پر گذشتہ صدی کے جن وا قعات و حادثات نے گہرے اثرات مرتسم کیے ان میں92ءمیں وقوع پذیر ہو نے وا لا بابری مسجد کی شہادت کا سا نحہ خاصا اہم ہے۔ 92ءمیں ہو نے وا لے اس واقعے کے ساتھ قومی سطح پر فسادات کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔ ہندو۔ مسلم کے درمیان کے فاصلے مزید گہرے ہوئے، ہندوستان میں مسلمانوں کی تہذیب، و ثقا فت اور مذہبی آ زادی کا شدید خطرہ لا حق ہو گیا۔ اس حا د ثے سے منسلک93ءمیں ممبئی میں سلسلے وار بم دھما کوں کا انتہائی خطر ناک واقعہ وقوع پذیر ہوا۔ ایک ہی دن شہر کے مختلف علا قوں میں چند منٹ کے فاصلے پر متعدد بم دھماکے ہوئے۔ انسانیت کا قتل ہوا۔پورا ملک کانپ اٹھا۔ ہندو مسلم کے درمیان تعلقات،دشمنی کی حد تک خراب ہوتے چلے گئے۔ نفرت اور فرقہ پرستی کا زہر اندر اندر پھیلتا رہا۔ کچھ دنوں طوفان سے قبل کی خاموشی بھی چھا گئی اور اسی دوران چپکے سے صدی تبدیل ہو گئی۔ نئی صدی میں بہت کچھ نیا سامنے آ نے لگا۔پھر گذشتہ صدی میں بوئے گئے نفرت کے بیج سے پیدا ہو نے وا لے پودے، مضبوط و مستحکم ہوتے گئے اور پھر گجرات میں گودھرا کانڈ سامنے آ یا جس کے رد عمل کے طور پر گجرات میں انسا نیت کو شرمسار کر نے وا لے فرقہ وارا نہ فسادات کا طویل سلسلہ شروع ہوا۔ انسانیت شرمسار ہوتی رہی۔ فرقہ پرستی، بر بریت اور وحشت کا ننگا ناچ جاری رہا۔ سماج کا تانا بانا بکھرتا گیا۔ کیا انسانیت، کیا انسان دوستی،پڑوسی پیار محبتسب تہس نہس ہوگیا۔مذہبی جنون نے سب کچھ تہہ و بالا کردیا۔ اکیسویں صدی کے ان سب یاد گار لمحات کو ہمارے افسا نہ نگاروں نے افسا نے کے لباس میں قید کر کے اور یاد گار بنا دیا:
” اور کئی گیس کے سلنڈروں سے بھرے ٹرک پر لد کر ساری رات تہذیب کے نام نئی نئی فنتا سی کو جنم دیتے رہے۔یعنی ایسی فنتا سیوں کو جن کے تذکرے نہیں ہو سکتے،جن پر گفتگو نہیں ہو سکتی۔ زندہ معصوم بچوں کو نئے نئے دلچسپ طریقوں سے آگ میں زندہ جلانے سے لے کر آ برو ریزی اور حاملہ عورتوں کی کوکھ میں ہاتھ ڈال کر
[لیبارٹری، لینڈ اسکیپ کے گھوڑے ،مشرف عالم ذوقی،193]
” اچا نک اسے شور و غوغا سا کچھ سنائی پڑا۔ وہ ہڑ بڑا کر اٹھ بےٹھا اور شور کو اپنی سماعت میں جذب کر نے کی کوشش کر نے لگا۔ با وجود اس کے اسے جب کچھ صاف سنائی نہ دیا تو وہ جھنجھلا کر با ہر سٹرک پر نکل آیا۔ وہاں اسے دور سے ایک جلوس آتا دکھائی دیا جو غا لباً سو ڈےڑھ سو افراد پر مشتمل رہا ہوگا۔ چند ایک نے ہاتھوں میں بھگوا جھنڈا اٹھا رکھا تھا تو کچھ لوگوں کے ہاتھوںمیں ترشول تھا۔ وہ سب کے سب ہم آواز ہو کر متواتر بس ایک ہی نعرے لگائے جاتے تھے کہ ”قسم رام کی کھاتے ہیں مندر وہیں بنائیں گے۔“
[بہروپیے،مجمو عہ ہل جو تا، اشتیاق سعید، ص23]
” ہمیں چھوڑدو چھوڑ دوانہیں لے جاﺅ دانشور نے اقلیت کے چاروں گناہگاروں کی طرف دیکھا۔ وہ سچ مچ ایک لاش بن گئے تھے۔ چہرے سفید پڑ گئے تھے۔ جس میں خون نہیں ۔ چا روں مذبح کی جانوروں کی طرح اداس کھڑے تھے۔ یعنی کس کی باری پہلے آ تی ہے۔ پھر کس کی باری“
[لیبارٹری، لینڈ اسکیپ کے گھوڑے ،مشرف عالم ذوقی،193]

”اخوت کے تارے اپنی روشنی کھو بےٹھے، تہذیب کا سورج منہ پہ رات کی کالک مل کے جانے کہاں جا ڈو با۔ قومیت کے فلک پر محض تعصب کے ستارے اپنی ہولناکی بکھیرے ہوئے تھے جن کے زیر سایہ بندو قیں گولیاں اگل رہی تھیں، شعلے لپک رہے تھے۔ تلواریں کھنک رہی تھیں، خون و کشت، لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم تھا۔ صبح ہوتے ہوتے اسپتالوں میں زخمیوں کا تانتا بندھ گیا۔ مردہ گھروں میں لاشوں کے انبار لگ گئے۔ قبرستا نوں میں قبریں کھودتے کھودتے گور کنوں کے ہاتھ شل ہوگئے، چتا ﺅں کے لیے لکڑیاں کم پڑنے لگیں۔“
[استتھی سامنیہ ہے، مجمو عہ ہل جو تا، اشتیاق سعید، ص70-71]
” یہ دلیپ تھا۔ اس کے ماتھے پر لال تلک، ہونٹوں پر مسکان، آنکھوں میں چمک اور ہاتھ میں پرشاد کی تھا لی تھی۔ اس نے پرشاد کا ایک پتا اٹھا کر مجھے دیا۔ اپنے ایک ساتھی کے ہاتھوں میں پرشاد کی تھا لی پکڑا کر وہ مجھے ایک طرف لے جا کر زیر لب بولا ”مراد آ باد میں ہندو مسلم جھگڑا ہو گیایہاں تک اس کی ہوائیں آ پہنچی ہیں۔میاں واتاورن بگڑتے دیر نہیں لگتی۔چلو میں آپ کو یہاں سے نکال دوں۔“
[انسان، مجمو عہ دہلیز سے اترے پاﺅں، شکیل جاوید، ص 62]

عالمی تشدد :
اکیسویں صدی کی شروعات عا لمی سطح پر بھی پر تشدد رہی ہے۔ عراق کی تبا ہی کا ہولناک منظر نامہ سا ری دنیا کے سامنے ہے۔ افغانستان کی خانہ جنگی۔ القاعدہ اور طالبان کا عروج، امریکہ کی فلک بوس عمارتوں کا خاک ہو جانا، چیچنیا، بوسینا کی دل دہلا دینے وا لی ہلا کتیں، نئے نئے دہشت گرد گروپوں کا سامنے آ نا، انگلینڈ پر دہشت گردا نہ حملہ، بن لا دن کا خاتمہ۔ ہند۔پاک اور پھر خلیجی ممالک میں عوا می بیداری کی لہریں جو اٹھیں تو امن و امان سے تھیں لیکن جن میں تشدد شامل ہوتا چلاگیا۔ فلسطین میں بر سوں سے چلا آ رہا تشدد کبھی بھی خطر ناک شکل اختیار کر لیتا ہے۔ ہمارے متعدد افسا نہ نگاروں نے اپنے افسانوں میں عالمی تشدد کو مو ضوع بنایا ہے۔دیدہ ور،بوسٹن نے تو نائن الیون پر پو را شمارہ ہی شا ئع کیا تھا۔افسانوں سے چند اقتباسات ملاحظہ ہوں :

” اعلی کمان خود کش تنظیم کی بنیاد کو اورمضبوط و مستحکم کر نے کی خوا ہش میں اکثر ان مما لک کی سیر کیا کرتا، جہاں کے لوگ یا تو غریب تھے یا جہاں کے لوگوں کو دوسرے ممالک نے اپنے شکنجے میں جکڑ رکھا تھا۔ یا پھر ویسے مذہبی نو جوان جو کسی بھی قیمت پر اپنے خلاف ایک بھی لفظ سننا نہیں چاہتے تھے۔ انہیں غریبی سے نکا لنے اور آزا دا نہ زندگی جینے کے خواب دکھا کر اعلی کمان ڈا لروں میں تو ل لیتا اور خود کش کی ٹریننگ دے کر ضرورت مند تنظیموں اور ملکوں کے ساتھ سودے بازی کرتا۔ اور دنیا کے مختلف حصوں میں بھیج کر ایسی تبا ہی مچا تا کہ دنیا حیرت زدہ رہ جاتی۔“
[ریمورٹ کنٹرول، سو نامی کو آنے دو، اختر آزاد، ص138]
” اور آپ جانئے یہ انہی دنوں کا واقعہ ہے جب دنیا کی تقدیر میں دہشت کے نئے باب لکھے جا رہے تھے۔قارئین! یہ کہانی کی مجبوری ہے کہ یہ اپنے وقت اور حالت کے تجزیے کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتی ” پرا نے ہزا رہ“ کے تارےخی دھماکے ابھی کم بھی نہیں ہو ئے تھے کہ نئے ہزارہ کی چےخوں نے انسانیت کی کتاب میں کتنے ہی لہو لہو باب کا اضافہ کردیا ۱۱ ستمبر ورلڈ ٹرےڈ سینٹر اور پنٹا گن پر دہشت گردوں کے ہنگا مے کے بعد ہندو پاک کے درمیان کشید گی بڑھتی چلی گئی۔
۳۱ دسمبر ہندو ستا نی پارلیا منٹ پر دہشت پسندوں کے حملے کے بعد صورت حال آہستہ آہستہ جنگ میں تبدیل ہو تی چلی گئینتیجے کے طور پر اپنی اپنی سطح پر دو نوں ہی ملکوں نے کئی بھیا نک قدم اٹھائے ہندوستان نے نہ صرف اپنا سفارت خانہ بند کیا بلکہ اپنے ہائی کمشنر بھی وا پس بلا لیے“
علا قائیت :
نئی صدی میں علا قائیت نے بھی خوب اپنا رنگ دکھایا ہے۔ جھاڑ کھنڈ کے نئی ریاست بننے کے بعد وہاں علاقائیت کا طوفان پو ری شدو مد کے ساتھ اٹھا تھا۔ جھاڑ کھنڈ کے کئی بڑے شہر جمشید پور، رانچی وغیرہ میں زیادہ تر ملک کی دیگر ریاستوں کے لوگ آ باد ہیں۔ یہاں کے اصل اور قدیم با شندے آدی واسی ہیں۔ یہی آ دی واسی اب سیاست میں آگئے ہیں۔ اب ان کے پاس طاقت اور پیسہ بھی آگیا ہے۔اقتدار میں آنے کے بعد انہوں نے با ہر کے لوگوں کے لیے مصیبت کھڑی کردی تھی۔یہی معاملہ مہا راشٹر میں بھی اکثر زور پکڑتا رہتا ہے۔ کئی بار بڑی بڑی تحریکیں چلی ہیں۔ ممبئی اور دیگر شہروں میں بھی یو پی، بہار اور بنگال، اڑیسہ وغیرہ کے لاکھوں لوگ آ باد ہیں۔ ان کا کارو بار، روز گار ممبئی میں ہے۔ آئے دن علا قائیت کے اٹھتے طوفان نے ممبئی کی زندگی کو متعدد بار مفلوج کردیا ہے۔ اردو افسا نے میں اکیسویں صدی کے ان اہم واقعات کو بھی اپنے اندر سمونے کا کام کیا ہے:
”اب تم ہی بتا ﺅ کہ عمر کے اس آخری حصے میں جب ہمیں قبر کے لیے تھو ڑی سی جگہ چا ہیے تو تم کہتے ہو کہ یہاں سے چلے جا ﺅ۔کیا ہم یہاں کے نہیں ہیں۔ کہیں با ہر سے آ ئے ہیں؟“
رام لال کی آ نکھیں بھیگی ہوئی تھیں اور ان بھیگی آ نکھوں میں ملک کے بٹوارے کا وہ بھیا نک منظر بھی سمٹ آیا تھا جب سب کچھ گنوا کر وہ اس دھرتی کو اپنا سمجھ بےٹھا تھا۔ اس وقت اس کی جیب میں نہ پیسے تھے اور نہ ہی جسم پہ صاف کپڑے۔ کئی کئی دن تک اسے فاقے سہنے پڑے تھے۔ اس نے ہو ٹلوں میں برتن دھوئے، سیمنٹ کی بو ری اٹھائی،قلی کبا ڑی کا کام کیا، فٹ پاتھ پر نیند کی چادر بچھا کر سو یا لیکن اس نے کبھی اندھیرے سے اپنے لہو کا سودا نہیں کیا۔“
[ہم کہاں جائیں بابو لال؟،مجمو عہ ایک سمپورن انسان کی گاتھا، اختر آزاد ،ص22

”اس کی سوچ تھی کہ شہر کا نام بھی رام کی شخصیت کے ہم پلہ ہو نا چاہیے اور اس کے ذہن میں رام کے نام سے منسوب شہروں اور قصبوں کی فہرست مرتب ہو نے لگی، جیسے رام گنج، رام نگر، رام پور، رام گڑھمگر افسوس! ان تمام ناموں میں اسے کوئی خاص جاذبیت محسوس نہ ہوئی اور وہ اس خیال کو ذہن سے جھٹک کر فکر و تردد کی دبیز چادر اوڑھ کر لیٹ رہا۔اچا نک اسے شور و غوغا سا کچھ سنائی پڑا۔ وہ ہڑ بڑا کر اٹھ بےٹھا اور شور کو اپنی سماعت میں جذب کر نے کی کوشش کر نے لگا۔ با وجود اس کے اسے جب کچھ صاف سنائی نہ دیا تو وہ جھنجھلا کر با ہر سڑک پر نکل آ یا۔ وہاں اسے دور سے ایک جلوس آ تا دکھائی دیا جو غالباً سو ڈےڑھ سو افراد پر مشتمل رہا ہو گا۔ چند ایک نے ہا تھوں میں بھگوا جھنڈا اٹھا رکھا تھا تو کچھ لوگوں کے ہاتھوں میں ترشول تھا۔ وہ سب کے سب ہم آواز ہو کر متوا تر بس ایک ہی نعرہ لگائے جاتے تھے۔ کہ ”قسم رام کی کھاتے ہیں مندر وہیں بنائیں گے۔“
[بہروپیے ،مجمو عہ ہل جوتا، اشتیاق سعید، ص 23]
آنر کلنگ :
نئی صدی میں آنر کلنگ‘ کے داغ نے بھی سماج کو داغ دار کیا ہے۔ یہ صدی نئی نئی لفظیات کے لیے بھی یاد کی جائے گی۔ اپنی عزت اور نام پر داغ لگنے کی صورت میں لوگ اپنے بچوں کو پہلے بھی مارتے رہے ہیں لیکن اس معا ملے کو آنر کلنگ کا نام اسی صدی کا دیا ہوا ہے۔یہی نہیں ابھی ابھی ایک نیا لفظ” لو جہا د“ بھی سامنے آ یا ہے جس میں مسلمان لڑکوں کے غیر مسلم لڑ کیوں کی دوستی اور شادی کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
آ نر کلنگ پر بھی اردو میں متعدد افسا نے تحریر ہو ئے ہیں۔ ایک اقتباس ملا حظہ ہو:
”تو بس فےصلہ ہو گیا ارشد خاں“چودھری نے کھاٹ سے کھڑے ہوتے ہو ئے کہا تو ارشد خاں کا جسم تھر تھرا گیا۔
”رحم چو دھریرحمبچی نا دان ہےمیں اسے سمجھا دوں گا۔“
” نہیں چو دھری اور برا دری کا فےصلہ کبھی نہیں بدلتا۔“
” چو دھری میں اپنی بےٹی کو لے کر اس گا ﺅں سے چلا جاﺅں گا۔ اس کی شادی کر دوں گا اور تمام واسطے تعلق ختم کرلوں گامگر اتنی بڑی سزا مت دو چو دھری۔“
”نہیں ارشدخاںاگرآج منیرا کو چھو ڑا گیا تو برادری کی تمام لڑکیوں کے سر بے حیائی سے کھل جائیں گے اور سب کی سب غیر برادری کے لڑ کوں سے جا ملیں گی تب ہم کسے منہ دکھا نے لائق رہ جائیں گے۔“
[آنر کلنگ،مجمو عہ آب حیات، فرقان سنبھلی،ص70-71،مطبوعہ2010]

نئی صدی کے افسا نے میں نئی لفظیات بھی فراوانی سے در آئی ہیں۔ مکس زبان کا استعمال بڑھ رہا ہے۔ یہ جہاں زبان کی صحت کے لیے مضر ہے وہیں اردو میں نئے جھونکے کی مانند ہے۔بس اس بات کا لحاظ رکھنا ہوگا کہ ان کا استعمال تخلیقیت کے ساتھ ہو:
”وہ کہنا چاہ رہے تھے، شاید ان کے ذہن کے کمپیوٹر سے سارے کے سارے الفاظ ڈی لیٹ ہو چکے تھے۔ انہوں نے یاد داشت کے کرشرCurserکو حواس کے کئی آ ئی کون سے مس کیا۔ لیکن بے سود۔“
[لالی پاپ ،مجمو عہ حاضر غائب، اشتیاق سعید، ص63،مطبوعہ 2013ئ]

”وہ دیر تک نائٹ اسپاٹ پر تھرکتے رہے۔ لا ﺅنج میں کچھ دیر ڈام مو ریس کی پوئٹری کا لطف لیا۔ پھر کچھ دیر تک ٹیوٹرس کی آرٹ گیلری میں ہاتھ میں ہاتھ ڈالے ٹہلتے رہے۔“
[بےٹی، مجمو عہ لینڈ اسکیپ کے گھوڑے، مشرف عالم ذوقی، ص104، مطبو عہ2003ئ]
”خاص طور پر گزشتہ پندرہ سالوں میں کھانے پینے کی چیزوں میں جراثیم کش ادویات کی آ میزش، تمباکو نوشی، پولٹری اور ڈیری فارمنگ کے لیے چارے میں ملا ئے جانے وا لےestrogens،کسے ہوئے زیرجامے کسی ہوئی جینزmale infertility کی نئی وجو ہات کے طور پر ابھری ہیں لیکن آپ بے شکمیرا مطلب ہے کہ آپ کیSexual Lifeبے شکNormalہے۔ لیکن آپ کے Semen میںSperms نہیں ہیں“
[زچ، مجمو عہ ایک بوند زندگی، بلراج بخشی،ص48-49،مطبوعہ2014]
الیکٹرانک میڈیا نے انٹرٹینمینٹ کے نام پر معصوم بچوں کے سامنے گیت، سنگیت، ڈانس اور ہنسی مذاق کی تھالی میں ڈبل میننگ جیسی سیکسی پکوان پروس کر، ان کے ذہن کو ایسا اسٹیریو ٹائپ بنا دیا ہے کہ رات دن ان کی زبان پر وہی ذائقہ چڑھا رہتا ہے ۔ذرا سوچئے کہ اگر سبھی بچّے ڈانسر، گیت کار، لافٹر یا پھر جوکر ہو گئے تو پھر ملک کی ترقّی کا کیا ہو گا؟کیا یہ لمحہ¿ فکریہ نہیں ہے؟
[افسانہ ”ریئلیٹی شو“ اخترآزاد، اشاعت: ’ایوانِ اردو‘ مارچ 2014]
اردو افسانے میں نئی صدی کے تغیر پذیر سماج کی عکاسی کا منظر نامہ، خاصا طویل ہے۔ اس پر ایک ضخیم کتاب کی ضرورت ہے۔ میں نے چند اقتباسات پیش کیے ہیںجن سے نئی صدی کا تغےیر پذیر سماج ہمارے سامنے آ جاتا ہے۔

Related posts

Leave a Comment