پوچھا جو میں نے میرِ شبستاں کسے بتاؤں آواز ہر طرف سے ہی آئی مجھے! مجھے!
Read MoreMonth: 2024 جولائی
شاہین عباس
تم نے کیا بات کاٹ دی تھی مری گھر میں آتا رہا گلی کا شور
Read Moreخورشید رضوی
پھول کھلنے کی کوشش سے اکتا گئے آنکھ بھر کر انھیں دیکھتا کون ہے
Read Moreعطاالحسن
چاہے مکین گھر کو بُرا جاننے لگے دیوار کیسے در کو بُرا جاننے لگے
Read Moreصابر ظفر
کچھ لوگ ادھر سے آ رہے ہیں کچھ روشنی ہو رہی ہے اس پار
Read Moreیزدانی جالندھری
مجھ سے ناراض تو وہ ہیں، لیکن تذکرہ میرا بات بات میں ہے
Read Moreفیض احمد فیض
نسیم تیرے شبستاں سے ہو کے آئی ہے مری سحر میں مہک ہے ترے بدن کی سی
Read Moreخالد علیم
کوئی پہلو میں رہتے ہوئے بھی ہے مجھ سے جدا اِن دنوں میرا سینہ سمندر ہے، دل ناخدا، میں اکیلا نہیں
Read Moreماجد صدیقی ۔۔۔ قاتل تھا جو، وہ مقتول ہُوا
قاتل تھا جو، وہ مقتول ہُوا مردُود، بہت مقبول ہُوا ہر طُول کو عرض کیا اُس نے اور عرض تھا جو وہ طُول ہُوا پھولوں پہ تصّرف تھا جس کا وہ دشت و جبل کی دھُول ہُوا اِک بھول پہ ڈٹنے پر اُس نے جو کام کیا، وہ اصول ہُوا گنگا بھی بہم جس کو نہ ہُوا جلنے پہ وہ ایسا پھول ہُوا ہو کیسے سپھل پیوندوں سے ماجد جو پیڑ، ببول ہُوا
Read Moreقمر جلالوی ۔۔۔ اپنی زلفیں کیوں سرِ بالیں پریشاں کر چلے
اپنی زلفیں کیوں سرِ بالیں پریشاں کر چلے آپ تو بالکل مرے مرنے کا ساماں کر چلے دیکھ اے صیاد چھینٹے خوں کے ہر تیلی پر ہیں ہم ترے کنجِ قفس کو بھی گلستاں کر چلے دل میں ہم شرما رہے ہیں شکوۂ محشر کے بعد پیشِ حق کیوں آئے کیوں ان کو پشیماں کر چلے اپنے دیوانوں کو تم روکو بہاریں آ گئیں اب کنارہ بابِ زنداں سے نگہباں کر چلے اے قمر حالِ شبِ فرقت نہ ہم سے چھپ سکا داغِ دِل سارے زمانے میں نمایاں کر چلے
Read More