ماجد صدیقی ۔۔۔ پت جھڑوں میں کیا سے کیا یاد آئیاں

پت جھڑوں میں کیا سے کیا یاد آئیاں تتلیوں پھولوں کی بزم آرائیاں آئنے چہروں کے گرد آلود ہیں پانیوں پر جم چلی ہیں کائیاں مفلسی ٹھہرے جہاں پازیبِ پا ان گھروں میں کیا بجیں شہنائیاں مکر سے عاری ہیں جو اپنے یہاں عیب بن جاتی ہیں وہ دانائیاں جو نہ جانیں بے دھڑک منہ کھولنا ہیں اُنہی کے نام سب رسوائیاں

Read More

ماجد صدیقی ۔۔۔ اپنے گھر میں جبر کے ہیں فیضان کئی

اپنے گھر میں جبر کے ہیں فیضان کئی پل بھر میں دھُنک جاتے ہیں ابدان کئی بٹتا دیکھ کے ریزوں میں مجبوروں کو تھپکی دینے آ پہنچے ذیشان کئی شاہ کا در تو بند نہ ہو پل بھر کو بھی راہ میں پڑتے ہیں لیکن دربان کئی طوفاں میں بھی گھِر جانے پر، غفلت کے مرنے والوں پر آئے بہتان کئی دل پر جبر کرو تو آنکھ سے خون بہے گم سم رہنے میں بھی ہیں بحران کئی ہم نے خود دیکھا ہاتھوں زور آور کے قبرستان بنے ماجد دالان…

Read More

ماجد صدیقی ۔۔۔ اُس نے جو ہشیار تھا ، دیکھا چھین لیا

اُس نے جو ہشیار تھا ، دیکھا چھین لیا ہاتھ میں بچّے کے تھا کھلونا چھین لیا سادہ لوح نے جو کچھ سینت کے رکھا تھا مکر نے اپنا ہاتھ دکھایا چھین لیا باپ سا دست نگر اُس کو بھی بنانے کو بنیے نے طفلک سے بستہ چھین لیا یہ بھی ہُنر ہے جو حاصل ہے جابر کو شاہیں نے چڑیا سے جینا چھین لیا عزّت داروں سے ماجدِ زور آور نے جتنا زعم اُنہیں تھا سارا چھین لیا

Read More

ماجد صدیقی ۔۔۔ اِک زمانے سے بہ وجہِ قحطِ زر، ناراض ہیں

اِک زمانے سے بہ وجہِ قحطِ زر، ناراض ہیں مجھ سے میرے گھر تلک کے بام و در ناراض ہیں سر کشیدہ ہیں ہوائیں اور کبوتر بدگماں چاہنے والوں سے سارے نامہ بر،ناراض ہیں باغ میں جب سے سیاست بادِ صرصر کی چلی ٹہنیوں سے پیڑ، پیڑوں سے ثمر ناراض ہیں مسخ کر ڈالے حقائق کور چشموں نے سبھی کر ہی کیا لیں گے اگر اہلِ نظر ناراض ہیں رونے دھونے سے فقط رہبر سے اب پائیں گے کیا کھو کے ماجد ہم اگر سمتِ سفر ناراض ہیں

Read More

ماجد صدیقی ۔۔۔ اظہار کو تھا جس کی رعُونت پہ گماں اور

اظہار کو تھا جس کی رعُونت پہ گماں اور دے دی ہے اُسی حبس نے پیڑوں کو زباں اور کہتی ہیں تجھے تشنہ شگوفوں کی زبانیں اے ابر کرم ! کھینچ نہ تو اپنی کماں اور ہر نقشِ قدم، رِستے لہو کا ہے مرّقع اِس خاک پہ ہیں، اہلِ مسافت کے نشاں اور نکلے ہیں لئے ہاتھ میں ہم، خَیر کا کاسہ اُٹھنے کو ہے پھر شہر میں، غوغائے سگاں اور صیّاد سے بچنے پہ بھی ، شب خون کا ڈر ہے اب فاختہ رکھتی ہے یہاں ، خدشۂ جاں…

Read More