ماجد صدیقی ۔۔۔ اُس نے جو ہشیار تھا ، دیکھا چھین لیا

اُس نے جو ہشیار تھا ، دیکھا چھین لیا
ہاتھ میں بچّے کے تھا کھلونا چھین لیا

سادہ لوح نے جو کچھ سینت کے رکھا تھا
مکر نے اپنا ہاتھ دکھایا چھین لیا

باپ سا دست نگر اُس کو بھی بنانے کو
بنیے نے طفلک سے بستہ چھین لیا

یہ بھی ہُنر ہے جو حاصل ہے جابر کو
شاہیں نے چڑیا سے جینا چھین لیا

عزّت داروں سے ماجدِ زور آور نے
جتنا زعم اُنہیں تھا سارا چھین لیا

Related posts

Leave a Comment