سلطان سکون :میرے عہد کا خدائے سخن ۔۔۔ ڈاکٹر عادل سعید قریشی

 سلطان سکون :میرے عہد کا خدائے سخن
ابنِ رشیق نے اپنی کتاب ’العمدۃ فی صناعۃ الشعرونقد‘ میں جس شاعری کے خدوخال واضح کیے ہیں وہ آج بھی اپنے فکری اور فنی تازگی کے سبب من و عن تسلیم کیے جا رہے ہیں۔ان افکار کی روشنی ہی میں متاخرین وناقدین اور شعرا نے اپنے اپنے مسالک ترتیب دیے ہیں۔ان افکار کا عکس اگر آج کسی شاعر کے ہاں دیکھنا مقصود ہو تو سلطان سکون کی کتاب’’کوئی ہے‘‘آپ کی منتظر ہے۔جہاں سلطان سکون کی شاعری اپنے حسن و تاثیرکی داد خواہ ہے۔۔ ۔ کتاب کے انتساب ’’اس کے نام‘‘ سے لے کرنظم ’’ ہوائے شہر جاناں ‘‘تک کا سفر ایک نہایت خوشگوارشعری فضا اور بہترین اشعار میں جذبات نگاری،زندگی کی بے ثباتی،وسیع المشربی،غیرت مندی،عشقِ مجازی،ستم ہائے زمانہ،غمِ روزگاراور دیگر غزل کے روایتی مضامین کے علاوہ عہدِ حاضر کے واویلے،انسان دوستی،زندگی کے معاملات میں تحمل اور بردباری کے ساتھ ان کے اپنے فقیرانہ منش کی جھلک نے شاعری کو سحر آفریں بنا دیا ہے اور شاعر کو میرے عہد کا خدا ئے سخن بنا دیا ہے۔ 
 یہ دیکھنا ہو گا کہ سکون نے شاعری کو کس حوالے سے لیا اور کیا یہ خدائے سخن اپنی شاعری میں جلوہ فگن ہے یا یہ کوئی خلوت نشین شاہ ہے،اس کی کروفر ،اس کے عجز اور اس کے فن کو اس کی شاعری میں تلاش کیا جائے اور دیکھا جائے کہ ان کی شاعری نے کیسے اردو کلاسیکی شاعری کی روایت کو برتا ہے کہ شاعر کے تازہ لہجہ اور منفرد اسلوب نے کیونکر اردو شاعری میں ایک تازہ طرز کو جنم دیا ہے۔سلطان سکون کا تعلق شاعروں کی اس پود سے ہے جنھوں نے ایبٹ آباد میں اردو زبان و ادب کی تخم ریزی کی ہے۔ایبٹ آباد میں گورنمنٹ کالج ایبٹ آباد کے بننے اور پھرپی ایم اے کے قیام نے نہایت زیریں سطح پر سہی لیکن ایک ادبی تحرک کو جنم دیا تھا جس کو خوش قسمتی سے اس عہد کی چند قد آور شخصیات نے سینچا اور یوں دبستانِ ایبٹ آبادکی پڑی۔ شاعری اس دبستان کی سب سے بڑی دین ہے اور ایک طویل تر فہرست ِ شعرا ترتیب دی جا سکتی ہے جو آنے والے وقتوں میں بڑھتی ہی چلی گئی۔ اسی فہرست کے چند معتبر اور محترم ناموں میں سے ایک نام سلطان سکو ن کا بھی ہے۔ 
میری پہلی ملاقات ان سے ۱۹۹۵ ء میں گورنمنٹ پوسٹ گریجوایٹ کالج نمبر ۱ ایبٹ آباد میں ہوئی تھی جہاں میں ایم اے اردو میں پڑھا کرتا تھا۔شعبہ میں کوئی بھی تقریب ہوتی سلطان سکون صاحب جلوہ فرما ہوتے ۔اس وقت معلوم پڑا کہ صوفی عبدالرشید صاحب کے قریبی دوست ہیں۔سادہ اور خوش لباس سلطان صاحب ہلکا سا تبسم ہونٹوں پر لیے دکھائے دیتے تھے۔ جب سلام دعا بڑھی تو معلوم ہوا کہ یہ سلطان تو ایک درویش ہے:
زیست کرتا ہوں بسر یوں تو فقیرانہ سکونؔ
ایک دن کا کبھی سلطان بھی ہو جاتا ہوں
پھر چند مشاعروں میں سننا نصیب ہوا تو اس سلطنت ِشعر کے سلطان کی شاعری نے اپنی رنگا رنگی سے متاثر کیا اور الگ لہجے اور طرز ِشعر نے اس درویش کے مسلکِ شعر کا پتا دیا جہاں انسان اپنی انسانیت کے سبب عظیم بھی ہے اور قابل ِتعظیم بھی،جہاں دکھوں کو سہنا ایک خالص انسانی شرف ہے جو کسی بھی اور جنس کو ودیعت نہیں ہوا ،جہاں وفا کی تلاش زندگی کو واحد وظیفہ نہیں جیسے زندگی صرف عشق میں گزارنے کے لیے نہیں ملتی بلکہ عشق سے اور بھی کئی ضروری کام انجام دینا ہوتے ہیں۔گو عشق کی چبھن اور خلش قلب ِشاعر میں ہر گھڑی میں کھٹکتی بھی اور شعروں میں ڈھلتی بھی جاتی ہے: 
فائدہ کیا ہے کسی کو بھی بتانے کا سکونؔ
جو بھی دکھ ہے اسے دل ہی میں چھپایا ہوا ہے
ڈھلتے گئے ہیں وہ مرے شعر وں کے روپ میں
وہ دکھ جو یاد آپ کے منھ پر نہ آئے تھے
اسی طرح موضوع کا تنوع ایسا ہے کوئی بھی بات ایسی نہیں جو زندگی کے کسی بھی زاویے سے متعلق ہو اور ان کے تجربے میں آئی ہو اور انھوں نے سلیقے سے شعر میں نہ باند ھ دی ہو۔ عشق ہو کہ بے وفائی،مطلب براری ہو کہ فکرِ روزگار، بیٹے کے پردیس میں جوانی تجنے کا احساس ہو کہ ماں بنا گزرتی راتیں،دل کی لگن کا بیان ہو کہ محبوب کی پردہ داری ،غرض ہر موضوع کی لو کو نہایت معروضیت سے برتا ہے۔چند اشعار ملاحظہ کیجیے:
پلٹ کے آگیا بچے کو خالی ہاتھ لیے
سجی دکانوں پہ چیزوں کو دیکھتا ،رکھتا
ماں جو نہیں تو اپنے دکھوں پر اب اکثر میں
اپنے ہی زانو پر سر رکھ کر رو لیتا ہوں
کوئی رسماً ہی اگر پرسش ِاحوال کرے
ہم وہ خوش فہم اسے تفصیل بتانے لگ جائیں
قاری کو ان کی شاعری میں ندرتِ فکر اور رفعتِ خیال کو ڈھونڈنے کی سعی کرنی نہیں پڑتی ہے بلکہ یہ دونوں وصف ہر مصرعے اور شعر میں میں جھلکتے ملتے ہیں۔ سلطان سکون کی ریاضت شعر ان کی کتاب کے ہر ہر صفحے پر پھیلی ہے۔ان کا عشق بھی ایک سنجیدہ تجربہ ہے جس کی کہانی ان کے کئی اشعار میں بکھری پڑی ہے اور اگر ان سب اشعار کو یک جا کر لیا جائے تو وہ مکمل کہانی قاری کے سامنے آجائے لیکن یہاں یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ وہ اپنے محبوب کے عشق میں کسی قنوطیت اور پچھتاوے کا شکار نہیں بلکہ کہیں محبوب کی یاد کا ذکر ہے تو کہیں اس کے ساتھ گزرے ہوئے لمحوں کا بیان،کہیں اس کی بے وفائی مذکور ہے اور کہیں اپنی محبت کی شدت کھِل رہی ہے،کہیں اس کے ساتھ سوچے، کل کے قصے ہیں تو کہیں اس کی ذات سے جڑی باتوں کو سوچ کر اپنی ذات میں ہی انجمن بن جانے کا راز افشا ہے:
سکوؔن اپنا جنوں بھی ہے زیادہ
وہ صورت بھی مگر پیاری بہت ہے
بچھڑ کر اس سے وہ ویراں کدہ ہے دل میرا
نہ چاپ کوئی نہ دستک نہ اب صدا ہے کوئی
قیامت ہے وہ اس کی سادگی بھی
بہت بنتا سنورتا بھی نہیں 
 ہاں ان کے شعر میں ایک گونہ سادہ بیانی اورشستگی سکون کو باقی سب شعرا سے ممتاز کرتی ہے ۔ کہتے ہیں کہ :
اب تو وہ دھیان میں بھی میرےبے خدوخال ہو چکا ہے
اور انتساب اسی بے خدوخال کے نام ہے۔سچ ہی ہے کہ عشق ایک تجربہ ہی نہیں بلکہ عشق ایک سودا ہے جو سما جائے تو پھر سما جائے ہے۔ لاکھ کہیے نہیں ہے مگر وہ کبھی لفظوں کے چناؤ میں دکھائی دے جائے گا تو کبھی ترکیبوں میں جھلک جائے گا ،تو کبھی کسی تشبیہہ میں ظاہر ہو جائے گا اور استعارہ تو ہے ہی عشق کا ازلی دشمن کہ وہ اس کو عیاں کیے جاتا ہے۔لاکھ صناعی کیجیے، لاکھ رمز برتیے،بھلے بات بدلیئے، عشق کی لو ہے کہ تیرگی کو چیرتی نکل جائے گی۔سلطان سکون کی محبت کوئی راز کی بات نہیں،وہ اپنے اس عشق پر فخر کرتے ہیں گو 
ہمیں کچھ ایسے محبت نے دربدر کیا ہے
کہیں پہ کوئی ٹھکانہ کیا نہ گھر کیا ہے
میری دیوانگی پر طنز کرتے ہو مگراس کو
دیکھو گے تو  میرے ہم نوا ہو جاؤ گے
عشقِ سلطان کی داستان کچھ بھی ہو محبت ایک ایسا جذبہ ہے جو رابطے  ہوں نہ ہوں اس کی لگن بڑھتی جاتی ہے اور سکون کی شاعری اپنے سکوت کے اندر ایک ایسا شور رکھتی ہے جو اس کے پڑھنے والے کو اس کی محبت کی کہانی سننے کے لیے آمادہ کرتا ہے۔ محبت کی کہانی ایک نظر سے شروع ہو کر روح کی اسیری تک جا پہنچتی ہے۔ شاعر فرماتے ہیں:
کوئی دکھائے تو دو چار دن گزار کے یوں
کہ ہم نے عمر کو جس طور سے بسر کیا ہے
اس نے یوں میرے دل و جاں میں سرایت کی ہے
اب کسی طوربھی میں اس کو بھلانے کا نہیں
 عشقِ سلطان خالصتاً انسانی عشق ہے ،ان کی شاعری میں ان کا محبوب اٹھتا بیٹھتا ،چلتا پھرتا،روٹھتامنتا دکھائی دیتا ہے،وہ محبوب اسی ہماری زمین کا ہے،اسی کنج و کیہال کا ہے اسی شیروان و تناول کا ہے اسی رش اور پکھل کا ہے۔ سکون کے شعر میں اس کی تصویر کسی دیومالائی پیکر کی نہیں ہے،شاعر ہمیں نہیں بتاتا کہ اس کا محبوب اس کو کیسے چائے پلاتا تھا،ناز کیسے دکھاتا تھا،نظریں کیسے چراتا تھا،کہاں ایک دوسرے کو اور کیسے دیکھا ہے گو یہی یادیں اس شاعر ِمحبت کا اثاثہ ہیں لیکن شاعر لمحہ ٔحاضر بیان کرتا ہے، شاعر معاملاتِ عشق پر بات نہیں کرتے بلکہ صرف اپنے دل کا حال دیتے ہیں اور وہ بھی لمحہ حاضر کا کہ جب ان کا عشق سماج گزیدگی سہہ چکا ہے:
لے تو پہنچے تھے اسے یاد کی سرحد سے پرے
دل ِخود سر نے مگر ہم سے بغاوت کر دی
سکون آج  کے اس دور اضطراب میں بھی
ہمارے دل ہی میں جائے امان باقی ہے
 رہا سماج تو حائل دلوں کے بیچ اکثر
مگر تمہارے مرے درمیاں زیادہ ہوا
اسی طرح شعر ِسکون میں ماضی میں محبوب کے ساتھ گزرے ہوئے وقت مذکور نہیں کیا۔ انھوں نے اپنے عشق کو دل میں بسا لیا اور اس عشق کو متاع بے بہا جانا۔ کہ وہ رسماًاپنے ماضی کا ذکر کر بھی لیں لیکن ان کو اپنے عشق کا موجود لمحے کا احساس زیادہ ہے۔کہتے ہیں:
مرے دل کی منڈیروں پر تو اب بھی
تری یادوں کا کا گا بولتا ہے
چلوں تنہا تو مجھ سے چپکے چپکے
ترے لہجے میں رستا بولتا ہے
خدا کو حاضر وناظر سمجھ کے یہ کہہ دے
کہ ہم نے تجھ سے محبت میں انتہانہیں کی
فقط جذبات کی رو میں وہ خط لکھے نہیں تھے
ابھی بھی قائم ہوں ہر خط کی ہر تحریر پرمیں
 
شعر سکون میں ،یہ حقیقت کھل کر سامنے آئی ہے کہ شعر سکون کے بہت سے اوصاف اپنی جگہ سہی لیکن عشق سلطان ہی ان کی شاعری کی سب سے نمایاں خوبی ہے۔وہ شاعر عشق اپنے محبوب کے ساتھ ایک فاصلاتی تعلق میں ہے اور وہ اپنے حال سے بے پروا ہے نہ بے خبر وہ جانتا ہے ماضی کتنا ہی حسین اور نازک جذبوں کا مالک کیوں نہ ہو اصل کہانی حال ہی ہے۔تبھی تو کہتے ہیں شاعری نے ان کو سنبھال لیا:
مجھے کہیں کا نہ رکھتا غم حیات سکونؔ
اگر میں شعرو سخن سے نہ دل لگا رکھتا
سکونؔ شعرو سخن کیوں نہ ہوعزیز ہمیں
کہ عمر بھر میں بہم اک یہی خزانہ کیا
عشق کی ساری سحر خیزیاں اپنی جگہ سہی لیکن جو رشتہ شریکِ حیات نبھاتی ہے اور ساری زندگی تج دیتی ہے اس بات سے انکار کجیے تو کیسے کیجیے اسی لیے ،سلطان سکون نے اپنی شریک حیات کو بھی خراج پیش کر دیا:
خادمہ بھی ہے اہل خانہ کی
نظم خانہ کی کاردار بھی ہے
صنف نازک ضرور ہے لیکن
عزم و ہمت کا کوہسار بھی ہے
یہ ہے گھر کا سکون ،جان ِ سکون
لطف بھی،چین بھی،قرار بھی ہے                   
غرض عشق سلطان در شعر ِسکون کے باب میں قاری کو کہیں دوستوں کی بے وفائی کا ذکر ملتا ہے تو کہیں فلک کی بے مہری بھی دکھائی دیتی ہے،کہیں زمانے کی ناقدری کا بیان ہوا ہے تو کہیں انسان کو ملنے والے فصلی بٹیروں کی دھوکہ دہی کا ذکر ملتا ہے،کہیں دنیا میں رہنے کے لیے انسان دوستی اور ترحم کو لازمی کہا ہے تو کہیں دوستوں کی دوستی پر فخر بھی ملتا ہے لیکن اصل موضوع ِشاعر عشق ہے خالص مجازی عشق ہے۔وہی عشقِ سلطان درِ شعر سکون، جہاں ہمیں سچے جذبات کی ایک الگ صورت دکھائی دیتی ہے، جہان شاعر کے ہوش میں ایک ٹھہراؤ ہے ،جہاں گزرے وقت کی کسک میں ایک تازگی ملتی ہے،جہاں شاعر کے جذبے کی سچائی میں ایک دیوانگی ہے،اپنے عشق میں گزرے کرب کے ہر حوالے پر شاعرکو آج بھی پیار آتا ہے،حسنِ یار کی خیرہ نگاہی کا بین السطور ذکرہے تو اپنے جذبات کی لو کی برانگیختگی پر ضبط بھی ملتا ہے۔ عشق َمجازی کے شاعر سلطان سکون ندرت بیان سے دل جیت لیتے ہیں:
آہ بھر کر ہوں مطمئن ایسے
جیسے اس نے بھی سن لیا ہو گا
سلطان سکون کی شاعری میں جیسا کہ معلوم حقیقت ہے کہ عصری شعور،غم ہائے روزگار، فکرِ فردا، روایات کی شکست اور اقدار کی نئی صورت گری، زندگی کے مزاج کے بدلاؤ سے پیدا ہونے والے حالات و واقعات کا ذکر، یاروں کی محفلوں کا ذکر اور پھر انہی دوستوں سے دوری کا ملال، ہجر و فراق کے مضامین،تخیل کی ارفعیت،خیال کی اصلیت، بیان کی صلابت، پیشکش کی ثروت، الفاظ کی ندرت، چناؤ کا ہنر، موضوع کی موضوعیت کی کامل برت، قاری دوستی ، بیان کی قطعیت، تجربہ اور مشاہدہ کی اکمل برت، ایجاواختصار کا فطری ملکہ غزل کی کلاسیکی روایت اور اساتذہ فن کا عمیق مطالعہ، نظم پر کامل عبور،غرض ان تمام اوصاف نے مل کر سلطان سکون کو میرے عہد کا خدائے سخن بنا دیا ہے۔

Related posts

Leave a Comment