رخشندہ نوید ۔۔۔ دو غزلیں

زمانے کا غلط انداز کیوں ہے
یہاں ہر شخص دھوکے باز کیوں ہے

کسی نے کیا مجھے پھر سے پکارا
ترے جیسی کوئی آواز کیوں ہے

میں روزانہ بہت جلدی سے سوئی
سہانا خواب جانے شاذ کیوں ہے

محبت کیا سپردِ خاک کر دوں؟
بھٹکتی روح بے پرواز کیوں ہے

نہ رکھنا آیا جب دل ہی کسی کا
تو پھر اس افسری پہ ناز کیوں ہے

کئی برسوں سے یکباری نہ پوچھا
کوئی تم سے بھلا ناراض کیوں ہے!

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ کیسی سرسوں کے مانند پھر سے پیلی ہوئی
تو کیا گرفت تری زندگی پہ ڈھیلی ہوئی

بدل رہی ہے کئی رنگ آسمان کی چھت
سفید ، سرمئی، پیلی کبھی یہ نیلی ہوئی

مرے مکاں کے برابر مکان کی دیوار
ہوئی جو نم تو اِدھر اینٹ اینٹ گیلی ہوئی

سڑک پہ دیکھا ہے اک حادثے کو ہوتے ہوئے
کہیں کہیں سے مری جلد بھی ہے چھیلی ہوئی

کوئی تو رنج تھا ، دل میں کہیں چھپایا ہوا
ذرا سی بات بھی ماچس کی ایک تیلی ہوئی

زمانہ رونے سے کرنے لگا اسے موسوم
زمینِ چشم ، اگر بھول کر بھی گیلی ہوئی

Related posts

Leave a Comment