رخشندہ نوید ۔۔۔ دو غزلیں

زمانے کا غلط انداز کیوں ہے یہاں ہر شخص دھوکے باز کیوں ہے کسی نے کیا مجھے پھر سے پکارا ترے جیسی کوئی آواز کیوں ہے میں روزانہ بہت جلدی سے سوئی سہانا خواب جانے شاذ کیوں ہے محبت کیا سپردِ خاک کر دوں؟ بھٹکتی روح بے پرواز کیوں ہے نہ رکھنا آیا جب دل ہی کسی کا تو پھر اس افسری پہ ناز کیوں ہے کئی برسوں سے یکباری نہ پوچھا کوئی تم سے بھلا ناراض کیوں ہے! ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ کیسی سرسوں کے مانند پھر سے پیلی ہوئی تو…

Read More

رخشندہ نوید ۔۔۔ اعتراف اور کتنی بار کریں

اعتراف اور کتنی بار کریں ہم ہیں روزے سے اعتبار کریں زخم کی ستر پوشی لازم ہے اتنی روشن نہ راہگزار کریں قہقہے پھیکے اشک ہیں نمکین آپ جو چاہیں اختیار کریں اتنی جلدی ہے کیا معافی کی میرے مرنے کا انتظار کریں کس نشانے پہ ہے ہدف ان کا تیر کو دل کے آر پار کریں وہ تو ہر اک کو جان کہتے ہیں مجھ پہ وہ جان مت نثار کریں مجھ میں کچھ کم ہوا ہے رخشندہ میرے عضو بدن شمار کریں

Read More

رخشندہ نوید ۔۔۔ ہر گھڑی موت کا ڈر نہیں چاہیے

ہر گھڑی موت کا ڈر نہیں چاہیے زندگی جا! یہ ٹرٹر نہیں چاہیے میں محبت کو دنیا میں پھیلاؤں گی مجھ کو بتلا! تجھے گر نہیں چاہیے ایک خالی سا رکھا ہے ڈبا کوئی مجھ کو شانوں پہ یہ سر نہیں چاہیے رقصِ بسمل کو محدود کیسے کروں مجھ کو اتنا بڑا گھر نہیں چاہیے پار دریا کسی نے پکارا مجھے ان پرندوں کو ہی پر نہیں چاہیے عشق میں جتنی جائز ہیں سفاکیاں ظلم کچھ اس سے بڑھ کر نہیں چاہیے رات ہو ، کہ ہو دن کا کوئی…

Read More

حمد باری تعالیٰ ۔۔۔۔ رخشندہ نوید

شمارِ رحمتِ ربیّ ہو وہ عدد نہیں ہے میں حمد کیسے لکھوں اتنا میرا قد نہیں ہے پناہ دیتا ہے وہ ذوالجلال والاکرام کہ اس جناب میں تفریقِ نیک و بد نہیں ہے وہ سب کی جھولیاں بھرتا ہے سب کا رب جو ہوا اُسی کا در ہے جہاں مانگنے کی حد نہیں ہے وہی ہے رازق و مالک‘ نہیں کوئی ذی روح کہ جس کے واسطے اللہ کی مدد نہیں ہے تجھی کو زیبا ہیں مالک تمام ذات و صفات الٰہ کیسے وہ ہو گا کہ جو صمد نہیں…

Read More

رخشندہ نوید ۔۔۔ نظم

ایک اک کرکے اوجھل ہو گئیں آنکھ سے کہاں،کدھر چڑیاں  ۔۔۔  بدلیاں  ۔۔۔ خوشیاں ۔۔۔ بیٹیاں چڑیاں! آکر بیٹھیں آنگن دانہ دانہ کھایا گھنا درخت کا سایہ اُڑ کر چلی گئیں پھر جانے کس جانب کِس اور میں نے چاہا اُن کو جیسے کوئی رنگیں مور ایک اک کرکے اوجھل ہو گئیں آنکھ سے کہاں کدھر بدلیاں! بدلیاں اُتریں اونچے اونچے پربت ناپ کے نیچے بھاگے بچّے بھاگے خوابوں کے انبوہ کے پیچھے صحن میں بکھرے شیشے لاکھوں ان پر چلے نہ کوئی بدلی ہوتے تن من اندر باہر جلے…

Read More

رخشندہ نوید ۔۔۔ رات کی رات

رات کی رات ۔۔۔۔۔۔۔ شام اُتری بدن پر حسیں لمس کے پھول کِھلنے لگے قرب کی لو سرہانے سرہانے جلی خواب گاہوں کے پیچھے ہواؤں کے پرنرم خوابوں کی آہٹ سے ملنے لگے شام اُتری بدن پر حسیں لمس کے پھول کھلنے لگے دھیرے دھیرے رواں کاروانِ فلک پر ستاروں کے جھرمٹ میں ڈوبی ہوئی رات جانے لگی چاہتوں کی ہوا سرسرانے لگی بند کمروں میں کھڑکی کے پردے اُٹھے ساعتِ سحر نے ادھ کھلی چشم کو خواب سے جاگنے کا اشارہ دیا صبح کی بارگاہوں میں ننھی کرن روشنی…

Read More

رخشندہ نوید ۔۔۔ ہر ایک لحظہ رُخِ داستان بھی بدلے

ہر ایک لحظہ رُخِ داستان بھی بدلے وہ بات بات پہ اپنا بیان بھی بدلے ہمارے سر سے کبھی غم کا آسماں نہ ہٹا بدل کے دیکھ لی بستی ، مکان بھی بدلے کبھی یہ وہم ہوا سنگ اُٹھائے پھرتی ہے کبھی یقین کہ یہ آسمان بھی بدلے اُس ایک شخص نے بدلا ہے میرا منظر زیست پھر اس کے بعد زمین و زمان بھی بدلے بدل کے رکھ دوں سوالِ حیات رخشندہ مگر یہ کمرۂ امتحان بھی بدلے

Read More

رخشندہ نوید ۔۔۔ قدم قدم پر ایک نئی ہلچل دیتا ہے

قدم قدم پر ایک نئی ہلچل دیتا ہے پہلے مشکل پھر مشکل کا حل دیتا ہے میں بھی وہی لفظوں کی بساط بچھا دیتی ہوں وہ بھی کوئی چال پرانی چل دیتا ہے تلخی اپنی نوکِ زباں پر جم سی گئی ہے ہم نے سنا تھا صبر تو میٹھا پھل دیتا ہے پہلے دکھائے دور سے راہیں ہری بھری وہ اور پھر چلتے جانے کو جنگل دیتا ہے سرحد کے اس پار عجب سی خاموشی ہے دشمن شاید رسّی کو پھر بل دیتا ہے پہلو سے اُٹھتے اُٹھتے ، جاتے…

Read More

رخشندہ نوید ۔۔۔ بچھڑ گیا تو ان آنکھوں کو کچھ گلہ ہی نہیں

بچھڑ گیا تو ان آنکھوں کو کچھ گلہ ہی نہیں کہ جیسے کچھ نہ ہوا ، زخمِ دل چھلا ہی نہیں اس ایک شخص کی خوشبو میں باغ باغ رہی جو پھول بن کے مری زلف میں کھلا ہی نہیں کچھ ایسے لوگ بھی اک عمر ساتھ رہتے ہیں ستارے مل گئے قسمت سے دل ملا ہی نہیں کبھی کبھی کی ملاقات میں گیا ، کیا کچھ وہ نرم باتیں وہ جذبوں کا سلسلہ ہی نہیں ہم اپنے ضبط پہ حیراں ہیں شدت غم میں ستارہ پلکوں تک آیا مگر…

Read More