رخشندہ نوید ۔۔۔ نظم

ایک اک کرکے اوجھل ہو گئیں آنکھ سے کہاں،کدھر
چڑیاں  ۔۔۔  بدلیاں  ۔۔۔ خوشیاں ۔۔۔ بیٹیاں

چڑیاں! آکر بیٹھیں آنگن
دانہ دانہ کھایا
گھنا درخت کا سایہ
اُڑ کر چلی گئیں پھر جانے
کس جانب کِس اور
میں نے چاہا اُن کو جیسے کوئی رنگیں مور
ایک اک کرکے اوجھل ہو گئیں آنکھ سے
کہاں کدھر
بدلیاں!
بدلیاں اُتریں اونچے اونچے پربت ناپ کے نیچے
بھاگے بچّے بھاگے خوابوں کے انبوہ کے پیچھے
صحن میں بکھرے شیشے لاکھوں
ان پر چلے نہ کوئی
بدلی ہوتے تن من اندر باہر جلے نہ کوئی
بکھر گئیں کس جانب جانے مہک مہک کِس اور
من نے چاہا اُن کو جیسے ہاتھ کی پیازی پور
ایک اک کرکے اوجھل ہو گئیں آنکھ سے
کہاں کدھر
خوشیاں ۔۔۔ !
خوشیاں پیٹ کے اندر جنمیں
چہرے اوپر جھلکیں
جیون چادر کھلی تو اُن پر اپنے پیر جمائے
سو سو رنگ دکھائے
خوشیاں حاکم کی باندی تھیں
اُن کا کوئی مقام
لگے نہ اُن سے نام کسی کا کیا سے کیا انمول

خوشیاں ڈھونڈنے نکلی دنیا وہ دنیا جو گول
خوشی سمے کانٹوں کی جھاڑی کھل کے
ہوئی گلاب
اُس کے بعد عذاب
اُڑ کر چلی گئیں پھر جانے کس جانب کس اور
چاہوں خوشیاں سونا چاندی چاہے جیسے چور
ایک اک کر کے چلی گئیں سب جانے
کہاں ،کدھر
بیٹیاں۔۔۔ !
بیٹیاں کاپی کتابیں میری
دل کے طاق سجائے
کونے کھدروں سے نرماہٹ چُن چُن
بھرے خزانے
گُل رخ اوپر ہاتھوں سے لکھے تھے کچھ ا فسانے
اپنے قلم اُدھار
دور تک اُن کے ساتھ چلے کچھ ننگے پیروں والے
اپنے کان کے ڈال دیئے تھے اُن کے کان
میں بالے
ناخن ماس نہ چھوڑے تن کا
مچل مچل گیا تھا دل…
میں چاہوں وہ چہرے ہر پل
چہرے وہ جھلمل…
اک اک کرکے ہو گئیں رخصت کس جانب کس اور
آنکھ کھلی تو خالم خالی میرا شہر بھمبور!

Related posts

Leave a Comment