سعدیہ بشیر ۔۔۔ الجھن

الجھ سی گئی ہوں
نیا سال ہے تو
پرانے کا کیا ہو !!!!
مرے پاس ایسے بہت سال ہیں۔۔۔،
کہاں پر سجاؤ ں ؟

کسی شیلف پر یہ سماتے نہیں۔۔۔ ،
نہ یہ ٹوٹ جائیں
یہ گٹھڑی میں بھی باندھے جاتے نہیں ،
مرتب رہیں ۔۔۔
یہ ملبوس ہیں کیا ؟ کہ دے دوں کسی کو
جو مجھ پر ہے گزرا ، وہ میرا رہے گا
سمجھ سے ہے باہر
کہاں رکھ کے آؤں ؟

جہاں پر گذشتہ کئی سال رکھے
وہ بجھنے لگے ہیں
انھیں سانس لینے کی حاجت نہیں کیا ؟
کہ زندہ ہیں گر تو کبھی ملنے آئیں
اگر مر چکے ہیں تو مدفن دکھائیں

مری کچھ دعائیں،
ابھی ان کہی تھیں
ردائیں بھی خواہش کی کھولی نہیں تھیں
جو گزری ہے اس کے کئی پل
تو میں نے چھوئے بھی نہیں تھے

لکیریں مٹیں جو پڑھی بھی نہیں تھیں
بہت دن تھے جن کی تہیں کھولنا تھیں ،
لپیٹے گئے وہ!

یہ ظالم سفر ہے
وہ سب کچھ جو ہاتھوں سے کھونا تھا مشکل!
گئے سال کیا کچھ نہیں لے گئے۔۔۔
جہاں پر گئے ، سب وہیں لے گئے ۔۔۔
اگر ملنا چاہوں تو حد نظر تک دکھائی نہ دیں گے

کبھی چھونا چاہوں
تو بھی خودتلک یہ رسائی نہ دیں گے
تو پھر کیا کروں۔۔۔ ؟
جو میرے تھے اب وہ بھی میرے نہیں کیوں ؟
الجھ سی گئی ہوں!

Related posts

Leave a Comment