خزاں کیا ہوتی ہے؟……. پروین شاکر

ﺳﺐ ﻧﮯ پوچھا، ﺧﺰﺍﮞ ﮐﯿﺎ ہوتی ہے؟ ﺗﻢ ﻧﮯ ﻣﯿﺮﯼ ﻣﺜﺎﻝ ﺩﯼ ہوتی ﭘُﻮﭼﮭﺎ ﻣﻮﺳﻢ ﺑﺪﻟﺘﮯ ہیں ﮐﯿﺴﮯ؟ ﺗﻢ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﻣﺜﺎﻝ ﺩﯼ ہوﺗﯽ ﭘُﻮﭼﮭﺎ ﮐﯿﺴﮯ ﮔﻬﭩﺎ ﺑﺮﺳﺘﯽ ہے؟ ﻣﯿﺮﯼ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﮐﯽ ﺑﺎﺕ ﮐﯽ ہوﺗﯽ ﭘُﻮﭼﮭﺎ ﺭُﮎ ﺭُﮎ ﮐﮯ ﮐﻮﻥ ﭼﻠﺘﺎ ہے؟ ﻣﯿﺮﮮ ﺩﻝ ﮐﯽ ﻣﺜﺎﻝ ﺩﯼ ہوﺗﯽ ﮐﺎﺵ ! ﺳﺐ ﮐچھ نہ یوں ہوا ہوتا ﺑﺎﺕ ﺗﻢ ﻧﮯ ﺳﻨﺒﮭﺎﻝ ﻟﯽ ہوﺗﯽ!   

Read More

غلام حسین ساجد

صبح تک جن سے بہت بے زار ہو جاتا ہوں مَیں شام ہوتے ہی انھیں گلیوں میں کھو جاتا ہوں مَیں

Read More

صابر ظفر

کلام کرتا ہوا، راستہ بناتا ہُوا گزر رہا ہوں میں اپنی فضا بناتا ہُوا مجھے نہ ڈھانپ سکی عُمر بھر کی بخیہ گری برہنہ رہ گیا میں تو قبَا بناتا ہُوا یہی بہار ہے میری کہ میں گزرتا ہوں ہر ایک خشک شجر کو ہرا بناتا ہُوا ہر ایک شاخ بدستور لہلہاتی رہی پرندہ سُوکھ گیا گھونسلا بناتا ہُوا اب اور کیا ہو ظفر انتہا مشقت کی شکستہ ہو گیا میں آئنہ بناتا ہُوا

Read More

غلام حسین ساجد

رات اک لہر رُکی پانی میں صبح دم گھاس اُگی پانی میں پھر بڑھی آس کی لَو آنکھوں میں پھر وہی آگ لگی پانی میں خواب میں آج اُسے دیکھیں گے چاند اُترے گا ابھی پانی میں  جھیل میں شام نے رکھا ہے قدم گویا اُتری ہے پری پانی میں  پہلے خود برف بنا تھا پانی پھر وہی برف ڈھلی پانی میں ہر طرف ایک گھنا بادل تھا رات وہ بات نہ تھی پانی میں  ایک تارا ہے نظر میں ساجد ایک قندیل جلی پانی میں

Read More

ادا جعفری

ہونٹوں پہ کبھی اُن کے مرا نام ہی آئے  آئے تو سہی، بر سرِ الزام ہی آئے حیران ہیں، لب بستہ ہیں، دل گیر ہیں غنچے خوشبو کی زبانی ترا پیغام ہی آئے لمحاتِ مسرت ہیں تصوّر سے گریزاں یاد آئے ہیں جب بھی غم و آلام ہی آئے تاروں سے سجالیں گے رہِ شہرِ تمنّا مقدور نہیں صبح ، چلو شام ہی آئے کیا راہ بدلنے کا گلہ ہم سفروں سے جس رہ سے چلے تیرے در و بام ہی آئے تھک ہار کے بیٹھے ہیں سرِ کوئے تمنّا…

Read More

یہ باتیں جھوٹی باتیں ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ابنِِ انشاء

یہ باتیں جھوٹی باتیں ہیں، یہ لوگوں نے پھیلائی ہیں تم انشاؔ جی کا نام نہ لو، کیا انشاؔ جی سودائی ہیں ہیں لاکھوں روگ زمانے میں، کیوں عشق ہے رُسوا بے چارا ہیں اور بھی وجہیں وحشت کی انسان کو رکھتیں دکھیارا ہاں بے کل بے کل رہتا ہے ہو پیت میں جس نے جی ہارا پر شام سے لے کر صبح تلک یوں کون پھرے گا آوارہ یہ باتیں جھوٹی باتیں ہیں، یہ لوگوں نے پھیلائی ہیں تم انشاؔ جی کا نام نہ لو، کیا انشاؔ جی سودائی…

Read More

سیف الدین سیف

راہ آسان ہو گئی ہو گی  جان پہچان ہو گئی ہو گی   موت سے تیرے درد مندوں کی  مشکل آسان ہو گئی ہو گی  پھر پلٹ کر نگہ نہیں آئی  تجھ پہ قربان ہو گئی ہو گی  تیری زلفوں کو چھیڑتی تھی صبا  خود پریشان ہو گئی ہو گی  اُن سے بھی چھین لو گے یاد اپنی  جن کا ایمان ہو گئی ہو گی  دل کی تسکین پوچھتے ہیں آپ  ہاں، مری جان! ہو گئی ہو گی  مرنے والوں پہ سیف حیرت کیوں  موت آسان ہو گئی ہو گی 

Read More

کہاں گئی ہو! ۔۔۔۔۔۔ ڈاکٹر وزیر آغا

کہاں گئی ہو؟ فلک کے اُس پار جا بسی ہو؟ زمیں کی گہری گپھا کے اندر اتر گئی ہو کہاں گئی ہو؟ تمھارے ہونے سے دل جواں رہ گزر رواں تھی گلاب چہروں سے ساری بستی مہک اُٹھی تھی خوشی، مکانوں کے ساغروں سے چھلک پڑی تھی تمھارے جانے کے بعد اب کچھ رہا نہیں ہے اُداس شاخوں میں اک بھی بھیگی صدا نہیں ہے ہوا سے خوشبو زمیں سے برکھا خفا کھڑی ہے! کہاں گئی ہو؟ رسیلی، میٹھی، گداز ۔۔۔۔ گھی میں گُندھی رُتو تم کہاں گئی ہو؟؟

Read More