گوشۂ حامد یزدانی (ماہنامہ بیاض لاہور ستمبر 2023)

Read More

غلام حسین ساجد … زمیں کا اور ہی کچھ رنگ تھا فضا کا اور

زمیں کا اور ہی کچھ رنگ تھا فضا کا اور میں اک نگاہ میں قائل ہُوا خُدا کا اور سُلگ رہا تھا تو اُس نے مجھے ہوا دی تھی میں جل اُٹھا تو ارادہ ہُوا ہوا کا اور سحر سے شام تلک کارواں اُترتے رہے تو رنگ ہونے لگا دشتِ نینوا کا اور چراغِ وصل کہیں اور بھی بھڑکتا تھا دُعا کا اور نشانہ تھا مُدعا کا اور ابھی میں پُوری طرح ڈوب بھی نہیں پایا ہُوا ہے نیند کے دریا میں اک چھناکا اور

Read More

غلام حسین ساجد ۔۔۔ چلنے لگا ہے پھر سے مرا دل رُکا ہوا

غزل چلنے لگا ہے پھر سے مرا دل رُکا ہوا کیا تُو ہے آئنے کے مقابل رُکا ہوا؟ اب اِذن دے کہ میرے لہو میں اُتر سکے طوفان ِ رنگ و بُو لب ِ ساحل رُکا ہوا تاخیر ہو نہ جائے کہیں کار ِ خیر میں چوکھٹ نہ چھوڑ دے کہیں سائل رُکا ہوا اک دائرے میں گھومتی رہتی ہے کائنات کچھ بھی نہیں یہاں، ارے غافل!  رُکا ہوا آنکھوں پہ ہے چراغ ِحقیقت کی چھاؤں دھوپ عارض کی روشنی میں کہیں تِل رُکا ہوا انجام تک پہنچنے میں جلدی…

Read More

نعت رسول پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم … غلام حسین ساجد

خاک کا پُتلا ہوں لیکن منحرف ہوں خاک سے ہے مجھے قلبی ارادت سیّدِ لولاک سے سانس لیتا ہوں تو خوشبو سے مہک اٹھتا ہوں میں دل کی ہر دھڑکن کو نسبت ہے رسولِ پاک سے سُنبل و ریحاں ہیں اُن کے کاکُلِ پیچاں کا نقش رس ٹپکتا ہے لبِ شیریں کا شاخِ تاک سے گُنبدِ خضرا کی تابانی کا کیا مذکور ہو نور کی بارات اُتری ہے کہیں  افلاک سے چُومتا ہے آپ کے قدموں کی مٹّی آسماں ماورا ہے آپ کی رفعت حدِ ادراک سے آپ کی ہاتھوں…

Read More

غلام حسین ساجد

کس لیے میرے کاندھوں پہ رکھّے گئے ہیں زمان و مکاں کیا مری روح پر میری تقصیر کا بوجھ کافی نہ تھا

Read More

غلام حسین ساجد … خواب کے درمیاں

خواب کے درمیاں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نیند آتی نہ تھی چاک پر گُھومتی چھائوں پر ہونٹ رکھنے کی لذّت سے محروم ہوتے گگن پر اُتر آئی تھی،خواب کی روشنی سے اُمڈتی تھکن خون میں رقص کرتی ہوئی دُھند کی لجلجی لہر سے پُھوٹ نکلا تھا،آنکھوں کو مہمیز کرتی ہوئی دُھوپ کا زنگ کھایا بدن خاک آلودہ کُوچوں میں بہنے لگے تھے کسی موجِ حیرت سے پیوستہ سرو و سمن کوئی دیوانہ پن رُت بدلتی نہ تھی ہجر کی آنچ پر جُھولتے جسم میں جمع ہونے لگی تھی گُل ِغیب کی آگ سے…

Read More

غلام حسین ساجد … نقّارے پر چوٹ پڑی ہے ، پِڑ باندھا سیّاروں نے

نقّارے پر چوٹ پڑی ہے ، پِڑ باندھا سیّاروں نے ریشم کی دیوار تنی تو سُکھ مانا معماروں نے میں نے بھی اک ناؤ بنا کر صحرا کی پیمائش کی ساگر میں جب شہر بسایا     پتّھر کے بنجاروں نے پانی کی زنجیر نہ ٹُوٹی،منظر موم نہ ہو پائے دریا کے لب سی رکھّے تھے دو ناراض کناروں نے اُس ندّی کے پار اترنا اب بھی ممکن ہو نہ سکا اپنی سی کوشش تو کر  دیکھی ہے کھیون ہاروں نے ایک قیامت خیز چمک کے ساتھ قیامت ٹوٹ پڑی بستی…

Read More

غلام حسین ساجد ۔۔۔ دیکھے نہیں چراغ بصارت نے میرے خواب

Read More