غلام حسین ساجد ۔۔۔ ستم شعار فلک کی نظر میں وہ بھی تھا

ستم شعار فلک کی نظر میں وہ بھی تھا سفر میں میں ہی نہیں تھا سفر میں وہ بھی تھا قدم قدم پہ فزوں ہو رہا تھا رنجِ سفر میں گھر کو چھوڑ کے نکلا تو گھر میں وہ بھی تھا یہ اور بات کہ مشکل تھا در گزر کرنا میں قہر بن کے جب اُٹھّا ، نگر میں وہ بھی تھا میں شام اوڑھے ہوئے پھر رہا تھا گلیوں میں قریب ہی کسی رنگِ دگر میں وہ بھی تھا مگر یہ بھید کُھلا آئنے چٹخنے سے نگار خانۂ عرضِ…

Read More

غلام حسین ساجد ۔۔۔ باغِ جمالِ یار ہے کل سے غضب کِھلا ہُوا

باغِ جمالِ یار ہے کل سے غضب کِھلا ہُوا آنکھیں مُندی مُندی ہوئیں،غنچۂ لب کِھلا ہُوا آئی ہے لالہ زار سے ایک عجیب سی مہک یعنی غیاب میں کہیں توُ بھی ہے اب کِھلا ہُوا کوئی چراغ کھینچ کر لائے گی اُونگھتی کرن اور نویدِ صبح ہے غُرفۂ شب کِھلا ہُوا کاش میں یاد کر سکوں دل سےجُڑے معاملات پایا تھا کب بُجھا ہوا،دیکھا تھا کب کِھلا ہُوا موجِ طرب نے کر دیا شہرِ الم کو باغ باغ رات کی بات اور تھی،اب تو ہے سب کِھلا ہُوا صحنِ چمن…

Read More

غلام حسین ساجد ۔۔۔ اپنے جیسی ایک مثال

اپنے جیسی ایک مثال ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہوا جب رقص کرتی ہے نئے موسم کی بانہوں میں تو پیڑوں اور بیلوں کی تھکن سے چور آنکھیں بھی نئے پتوں، شگوفوں کے سہانے خواب سے بوجھل خزاں کے زرد بستر سے بہارِ سرخ کی جانب لہو کے گرم دھارے میں عجب اِک کیف میں لرزاں بہت تیزی سے بہتی ہیں مگر خاموش رہتی ہیں

Read More

غلام حسین ساجد ۔۔۔ صاحبِ شام نے جب شروعات کی سیرِآفاق کی

صاحبِ شام نے جب شروعات کی سیرِآفاق کی میں نے بھی لو بڑھا دی ذرا دیر کو اپنے اوطاق کی لاکھ چاہا کہ اُس سے کنارہ کروں پر نہیں ہو سکا گفتگو اُس پری وش نے میری طبیعت کے مصداق کی طاقچے پر کتابِ صداقت دھری کی دھری رہ گئی اب سیاہی بھی تحلیل ہونے لگی بوسیدہ اوراق کی جس طرف دیکھیے آگ کا کھیل جاری ہے افلاک پر اب ضرورت نہیں ہے مرے مہربانوں کو چمقاق کی اپنے ورثے میں جو کچھ ملا تھا مجھے میں نے باقی رکھا…

Read More

غلام حسین ساجد ۔۔۔ میں جب کسی چراغ کی لو سے لپٹ گیا

میں جب کسی چراغ کی لو سے لپٹ گیا آئینہ اپنی آنکھ کے اندر سمٹ گیا پیدا ہوئی عروج سے صورت زوال کی سورج جواں ہوا تو مراسایہ گھٹ گیا آیا ہوں خاک چھان کے میں دشتِ نجد کی یہ کام میرے ہاتھ سے کیسے نمٹ گیا کیا ختم ہو گئی گُلِ موعود کی کشش کیا میری طرح شہر بھی ٹکڑوں میں بٹ گیا آئی ہوا تو محو ہوئے رنگ باغ کے مٹّی اُڑی تو گرد میں ہر پھول اٹ گیا سچ بولنے کا کوئی ارادہ نہ تھا مگر جب…

Read More

غلام حسین ساجد ۔۔۔ بکھرنے سے ذرا پہلے

بکھرنے سے ذرا پہلے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ابھی آنکھیں سلامت ہیں ابھی ان آئنوں میں روشنی کا عکس بنتا ہے سمندر، آسماں، پتے، دریچے، بیل بوٹے پھول، گھر، جنگل، ستارے بستیوں کے کھوج میں نکلے مسافر (کہ جتنے بھی ہیں سارے روشنی کے استعارے ہیں) ابھی موجود ہیں اور اک عجب آسودگی کی لَو سے روشن ہیں ابھی وہ آگ جلتی ہے جو اندھے آئنوں میں عکس کی تعمیر کرتی ہے ابھی مَیں دیکھ سکتا ہوں لہو کی نرم رَو سے پھوٹتے موسم کی مٹھی میں وہ آنکھیں، جن کے دم سے…

Read More

نعت رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم ۔۔۔ غلام حسین ساجد

خاک کا پُتلا ہوں لیکن منحرف ہوں خاک سے ہے مجھے قلبی ارادت سیّدِ لولاک سے سانس لیتا ہوں تو خوشبو سے مہک اٹھتا ہوں میں دل کی ہر دھڑکن کو نسبت ہے رسولِ پاک سے سُنبل و ریحاں ہیں اُن کے کاکُلِ پیچاں کا نقش رس ٹپکتا ہے لبِ شیریں کا شاخِ تاک سے گُنبدِ خضرا کی تابانی کا کیا مذکور ہو نور کی بارات اْتری ہے کہیں افلاک سے چُومتا ہے آپ کے قدموں کی مٹّی آسماں ماورا ہے آپ کی رفعت حدِ ادراک سے آپ کے ہاتھوں…

Read More

غلام حسین ساجد ۔۔۔ رنگِ حنا پہ رنگِ خزانی نہیں چڑھا

رنگِ حنا پہ رنگِ خزانی نہیں چڑھا دریا اُتر گیا ہے کہ پانی نہیں چڑھا کٹتے ہیں بے کنار اندھیرے میں رات دن دیوار پر چراغِ زمانی نہیں چڑھا سویا رہا ہوں کتنے زمانوں تلک کہ میں بوڑھا تو ہو گیا ہوں،جوانی نہیں چڑھا آنکھوں میں سرفراز ہے اک آئنہ بدن دل پر جمالِ پرتوِ ثانی نہیں چڑھا لکنت زدہ تھی نُطق کی تعبیر اس لیے سر کو خُمارِ شعلہ فشانی نہیں چڑھا تفہیم اس کنایۂ ہستی کی قرض ہے دریائے صبحِ حرفِ معانی نہیں چڑھا لایا ہے میرا عشق…

Read More