روشنی دینے لگے تھے مری آنکھوں کے چراغ رات تکتا تھا سمندر مجھے حیرانی سے
Read MoreTag: Ghulam hussain sajid
غلام حسین ساجد
خاک زادوں سے تعلق نہیں رکھتے کچھ لوگ میزبانی سے غرض اُن کو نہ مہمانی سے !
Read Moreغلام حسین ساجد ۔۔۔ جو کوئی پھول میسّر نہ ہو آسانی سے
غزل جو کوئی پھول میسّر نہ ہو آسانی سے کام لیتا ہوں وہاں نقدِ ثنا خوانی سے روشنی دینے لگے تھے مری آنکھوں کے چراغ رات تکتا تھا سمندر مجھے حیرانی سے کر کے دیکھوں گا کسی طرح لہو کی بارش آتشِ ہجر بجھے گی نہ اگر پانی سے اُن کو پانے کی تمنا نہیں جاتی دل سے کیا منور ہیں ستارے مری تابانی سے ؟ کوئی مصروف ہے تزئین میں قصرِ دل کی چوب کاری سے ، کہیں آئنہ سامانی سے خاک زادوں سے تعلق نہیں رکھتے کچھ لوگ…
Read Moreغلام حسین ساجد ۔۔۔ حاصل کسی سے نقدِ حمایت نہ کر سکا
حاصل کسی سے نقدِ حمایت نہ کر سکا میں اپنی سلطنت پہ حکومت نہ کر سکا ہر رنگ میں رقیبِ زرِ نام و ننگ ہوں اک میں ہوں جو کسی سے محبت نہ کر سکا گھلتا رہا ہے میری رگوں میں بھی کوئی زہر لیکن میں اِس دیار سے ہجرت نہ کر سکا پڑ تا نہیں کسی کے بچھڑ نے سے کوئی فرق میں اُس کو سچ بتانے کی زحمت نہ کر سکا آیا جو اُس کا ذکر تو میں گنگ رہ گیا اور آئنے سے اُس کی شکایت نہ…
Read Moreغلام حسین ساجد ۔۔۔ منزلِ عشق عیاں ، زیست کا حاصل معلوم (دو غزلہ)
منزلِ عشق عیاں ، زیست کا حاصل معلوم ہے مرے چارہ گروں کو مری مُشکل معلوم کون ہو گا جسے دُھتکار دیا جائے گا کون ہو گا ترے احباب میں شامل معلوم دہر بدلا ہے نہ دُنیا کی روش بدلے گی کون ہو گا یہاں تکریم کے قابل معلوم اپنی تہذیب کے پابند رہا کرتے ہیں اور ہوتے ہیں انھیں سارے سلاسل معلوم کس پہ ڈالے گا عنایت کی نظر ، جانتے ہیں کون ہے اُس کے تئیں عشق میں کامل معلوم منتخب اُس کو کِیا ہے مری دل داری…
Read Moreغلام حسین ساجد ۔۔۔ ستم شعار فلک کی نظر میں وہ بھی تھا
ستم شعار فلک کی نظر میں وہ بھی تھا سفر میں میں ہی نہیں تھا سفر میں وہ بھی تھا قدم قدم پہ فزوں ہو رہا تھا رنجِ سفر میں گھر کو چھوڑ کے نکلا تو گھر میں وہ بھی تھا یہ اور بات کہ مشکل تھا در گزر کرنا میں قہر بن کے جب اُٹھّا ، نگر میں وہ بھی تھا میں شام اوڑھے ہوئے پھر رہا تھا گلیوں میں قریب ہی کسی رنگِ دگر میں وہ بھی تھا مگر یہ بھید کُھلا آئنے چٹخنے سے نگار خانۂ عرضِ…
Read Moreغلام حسین ساجد
یہ راز مجھ پہ بہت دیر میں کُھلا ساجد مرے علاوہ کہیں رہ گزر میں وہ بھی تھا
Read Moreغلام حسین ساجد ۔۔۔ باغِ جمالِ یار ہے کل سے غضب کِھلا ہُوا
باغِ جمالِ یار ہے کل سے غضب کِھلا ہُوا آنکھیں مُندی مُندی ہوئیں،غنچۂ لب کِھلا ہُوا آئی ہے لالہ زار سے ایک عجیب سی مہک یعنی غیاب میں کہیں توُ بھی ہے اب کِھلا ہُوا کوئی چراغ کھینچ کر لائے گی اُونگھتی کرن اور نویدِ صبح ہے غُرفۂ شب کِھلا ہُوا کاش میں یاد کر سکوں دل سےجُڑے معاملات پایا تھا کب بُجھا ہوا،دیکھا تھا کب کِھلا ہُوا موجِ طرب نے کر دیا شہرِ الم کو باغ باغ رات کی بات اور تھی،اب تو ہے سب کِھلا ہُوا صحنِ چمن…
Read Moreغلام حسین ساجد ۔۔۔ اپنے جیسی ایک مثال
اپنے جیسی ایک مثال ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہوا جب رقص کرتی ہے نئے موسم کی بانہوں میں تو پیڑوں اور بیلوں کی تھکن سے چور آنکھیں بھی نئے پتوں، شگوفوں کے سہانے خواب سے بوجھل خزاں کے زرد بستر سے بہارِ سرخ کی جانب لہو کے گرم دھارے میں عجب اِک کیف میں لرزاں بہت تیزی سے بہتی ہیں مگر خاموش رہتی ہیں
Read Moreغلام حسین ساجد ۔۔۔ صاحبِ شام نے جب شروعات کی سیرِآفاق کی
صاحبِ شام نے جب شروعات کی سیرِآفاق کی میں نے بھی لو بڑھا دی ذرا دیر کو اپنے اوطاق کی لاکھ چاہا کہ اُس سے کنارہ کروں پر نہیں ہو سکا گفتگو اُس پری وش نے میری طبیعت کے مصداق کی طاقچے پر کتابِ صداقت دھری کی دھری رہ گئی اب سیاہی بھی تحلیل ہونے لگی بوسیدہ اوراق کی جس طرف دیکھیے آگ کا کھیل جاری ہے افلاک پر اب ضرورت نہیں ہے مرے مہربانوں کو چمقاق کی اپنے ورثے میں جو کچھ ملا تھا مجھے میں نے باقی رکھا…
Read More