غلام حسین ساجد ۔۔۔ ستم شعار فلک کی نظر میں وہ بھی تھا

ستم شعار فلک کی نظر میں وہ بھی تھا
سفر میں میں ہی نہیں تھا سفر میں وہ بھی تھا

قدم قدم پہ فزوں ہو رہا تھا رنجِ سفر
میں گھر کو چھوڑ کے نکلا تو گھر میں وہ بھی تھا

یہ اور بات کہ مشکل تھا در گزر کرنا
میں قہر بن کے جب اُٹھّا ، نگر میں وہ بھی تھا

میں شام اوڑھے ہوئے پھر رہا تھا گلیوں میں
قریب ہی کسی رنگِ دگر میں وہ بھی تھا

مگر یہ بھید کُھلا آئنے چٹخنے سے
نگار خانۂ عرضِ ہُنر میں وہ بھی تھا

کسی کی زلفِ گرہ گیر کا اسیر تھا مَیں
تو دام ِ حلقۂ دیوار و در میں وہ بھی تھا

یہ راز مجھ پہ بہت دیر میں کُھلا ساجد
مرے علاوہ کہیں رہ گزر میں وہ بھی تھا

Related posts

Leave a Comment