سعید راجہ

وہ کیا پُر نور آنکھیں تھیں

وہ کیا پُر نور آنکھیں تھیں
جنہیں میں خواب میں دیکھا
دمک جتنی قمر میں ہے
ستاروں کی چمک ساری
نشہ جو مے میں ہوتا ہے
جو وسعت ہے سمندر میں
بہاروں کی دلآویزی
یہ زرخیزی بھی موسم کی
تصور کا مکمل پن
لکھی جاتی ہیں جو نظمیں
غزل کہتے ہیں شاعر جو
مسیحا کی مسیحائی
حقیقت میں فسانہ اور
فسانوں میں حقیقت بھی
اُنھی آنکھوں کا صدقہ ہے
جنہیں میں خواب میں دیکھا

Related posts

Leave a Comment