اپنی آوازوں کو چپ رہ کر سنا تب کہیں جا کر یہ ز یر و بم بنے
Read MoreMonth: 2024 اگست
قمر جلالوی ۔۔۔ عالم تجھ کو دیکھ رہا ہے کوئی کب پہچانے ہے
عالم تجھ کو دیکھ رہا ہے کوئی کب پہچانے ہے ذرے تک میں تو ہی تو ہے خاک زمانہ چھانے ہے چھاننے دو دیوانہ ان کا خاک جو در در چھانے ہے کوئی کسی کو کیا سمجھائے کون کسی کی مانے ہے میں اور مے خانے میں بیٹھا شیخ ارے ٹک توبہ کر مردِ خدا میں جانوں نہ تانوں مجھ کو تو کیوں سانے ہے مے خانے میں دنیا آئے دنیا سے کچھ کام نہیں جام اسی کو دے گا ساقی جس کو ساقی جانے ہے جام نہ دینے کی…
Read Moreسید آل احمد
تم جو میری بات سنے بن چل دیتے رات لپٹ کر رو دیتا دروازے سے
Read Moreمحسن اسرار
گھر میں رہنا مرا گویا اُسے منظور نہیں جب بھی آتا ہے نیا کام بتا جاتا ہے
Read Moreخالد علیم
میرے اشعار ہی میرے ہم راز ہیں، میرے دم ساز ہیں میرے اندر ہے کوئی ہنر آشنا، میں اکیلا نہیں
Read Moreقمر جلالوی ۔۔۔ بے خودی میں ان کے وعدے معتبر سمجھا نہیں
بے خودی میں ان کے وعدے معتبر سمجھا نہیں وہ اگر آئے بھی تو میں دوپہر سمجھا نہیں اس نے کس جملے کو سن کر کہہ دیا تجھ سے کہ خیر نامہ بر میں یہ جوابِ مختصر سمجھا نہیں اس قفس کو چھوڑ دوں کیونکر کہ جس کے واسطے میں نے اے صیاد اپنے گھر کو گھر سمجھا نہیں تہمتیں ہیں مجھ پہ گمرا ہی کی گستاخی معاف خضر سا رہبر تمہاری رہگزر سمجھا نہیں ہے مرض وہ کون سا جس کا نہیں ہوتا علاج بس یہ کہیے دردِ دل…
Read Moreیزدانی جالندھری
ہم جانتے ہیں آئے گا کیا عرش سے جواب دستِ دعا سے ہاتھ اٹھائے ہوئے ہیں ہم
Read Moreسید آل احمد
رنجِ سکوں تو ترکِ وفا کا حصہ تھا سوچ کے کتنے پھول کھلے خمیازے سے
Read Moreقمر جلالوی ۔۔۔ قفس میں محوِ زاری کاہے کو شام و سحر ہوتے
قفس میں محوِ زاری کاہے کو شام و سحر ہوتے اسِیروں کے کسی قابل اگر صیاد پر ہوتے مجھے صورت دکھا کر چاہے پھر دشمن کے گھر ہوتے دم آنکھو میں نہ رک جاتا اگر پیشِ نظر ہوتے چلو بیٹھو شبِ فرقت دعا دو ضبط کو ورنہ مرے نالوں کو سنتے اور تم دشمن کے گھر ہوتے علاجِ دردِ شامِ غم مسیحا ہو چکا جاؤ مریضِ ہجر کی میت اٹھا دینا سحر ہوتے مداوا جب دلِ صد چاک کا ہوتا شبِ فرقت رفو کے واسطے تارے گریبانِ سحر ہوتے قمر…
Read Moreخالد احمد ۔۔۔ اسی غم کی اوٹ ملا تھا وہ مجھے پہلی بار یہیں کہیں
اسی غم کی اوٹ ملا تھا وہ مجھے پہلی بار یہیں کہیں کسی چشمِ تر میں تلاش کر اُسے میرے یار یہیں کہیں یہ جو سمتِ عشق میں جھیل ہے ، یہ جو سمتِ غم میں پہاڑ ہیں مری راہ دیکھ رہا نہ ہو مرا شہ سوار یہیں کہیں مرے دل کے باب نہ کھولنا، مرے جان و تن نہ ٹٹولنا کسی زاویے میں پڑ ا نہ ہو، وہ بتِ نگار یہیں کہیں گلِ شام! اے گلِ سُرمگیں ! وہ خدنگِ ربطِ گُل آفریں مری جان دیکھ ہوا نہ ہو،…
Read More