اِدھر اُدھر کی مثالوں میں ایک مَیں بھی سہی ترے عجیب سوالوں میں ایک مَیں بھی سہی
Read MoreTag: Khalid Aleem’s Ash’ar
خالد علیم
اب آنکھ میں کوئی آنسو‘ کوئی ستارہ نہیں کچھ ایسے ٹوٹ کے روئے ترے وصال میں ہم
Read Moreخالد علیم : مری بستی تباہی کی طرف کیوں جا رہی ہے
خالد علیم ۔۔۔ رباعیات
رباعیات تخلیق کے لمحات میں آفاق آثار میری تمثال، میرے تمثال نگار یا غرفۂ شب میں اک مہکتا ہوا چاند یا پردۂ شام پر دہکتے انگار ۔۔۔ اب دُور نہیں کشتیِ جاں کی منزل مل جائے گا بحرِ آرزو کا ساحل دشت ِ سفرِ فراق تو کچھ بھی نہیں دوچار گھڑی کہیں بہل جا‘ اے دل! ۔۔۔ منزل تک مختصر سفر باقی ہے اے میری ہم سفر! سفر باقی ہے اے عمرِ رواں! کہیں ذرا سستا لے کچھ کم ہی سہی مگر سفر باقی ہے ۔۔۔ ہر عہد کے دامن…
Read Moreحمد باری تعالی ۔۔۔ خالد علیم
ﷻ جو تیری حمد کو ہو خوش رقم، کہاں سے آئے وہ روشنائی، وہ نوکِ قلم کہاں سے آئے گناہ گار ہوں اے میرے مہربان خدا! اگر گناہ نہ ہوں، چشمِ نم کہاں سے آئے اگر نہ تارِ نفس کا ہو سلسلہ تجھ سے یہ مجھ سے خاک نژادوں میں دم کہاں سے آئے تری رضا سے علاوہ، تری عطا کے بغیر بدن میں طاقت ِ رفتار و رَم کہاں سے آئے ترے کرم کے ترشُح بغیر دھوپ میں بھی ہَوا میں تازگیِ نم بہ نم کہاں سے آئے رجوعِ خیر…
Read Moreخالد علیم ۔۔۔ رباعیات
سورج ہے عجیب، کچھ اُجالا کرکے اک اگلی صبح کا تقاضا کرکے ہر رات ستاروں کو بجھا دیتا ہے ہر روز نکلتا ہے تماشا کرکے ٭ حیرت کی فراوانی گھر پر ہے میاں باہر بھی گھر جیسا منظر ہے میاں آنکھیں نہ جلا کہ اندروں جل جائے خاموش کہ خامشی ہی بہتر ہے میاں ٭ کھِل سکتا ہے گوبر سے گُلِ ریحانی جوہڑ سے نکل سکتا ہے میٹھا پانی یہ جَہلِ مرکّب جو نہیں تو کیا ہے؟ نادان کی نادانی پر حیرانی ٭ ایسا بھی بے خبر کوئی دل ہوگا؟…
Read Moreنعت رسول مقبولﷺ ۔۔۔ خالد علیم
ﷺ آپ کا ذکرِ مبارک لب بہ لب، شاہ ِؐ عرب آپ کی توصیف ہے وجہِ طرب، شاہِ ؐ عرب عمر بھر کرتا رہوں میں آپ کی مدحت رقم اس سے بڑھ کر کچھ نہیں میری طلب، شاہِ ؐ عرب آپ کی ذاتِ مقدس محسنِ نوعِ بشر آپ پر قرباں ہوں میرے جدّ و اَب، شاہِ ؐ عرب آفتاب ِدہر، قندیلِ شبستانِ وجود شمعِ محفل، ماحیِ ظلماتِ شب، شاہِ ؐ عرب عقل و فہم و دانش و حکمت کا بحرِ بے کراں مخزنِ علم و ادب، اُمی لقب، شاہِ ؐ…
Read Moreخالد علیم ۔۔۔ ترے لیے کبھی وحشت گزیدہ ہم ہی نہ تھے
ترے لیے کبھی وحشت گزیدہ ہم ہی نہ تھے وہ دشت بھی تھا، گریباں دریدہ ہم ہی نہ تھے لُٹے پٹے ہوئے اُن راستوں سے آتے ہوئے یہ سب زمین تھی، آفت رسیدہ ہم ہی نہ تھے ہمارے ساتھ کِھلے، ہم پہ مسکرانے لگے تھے تم بھی ایک گلِ نودمیدہ، ہم ہی نہ تھے تم ایک خواب ہوئے اور بن گئے مہتاب فلک کی آنکھ میں اشکِ چکیدہ ہم ہی نہ تھے بجھی ہوئی تھیں فضائیں، سُلگ رہا تھا دھواں بہ رنگِ طائرِ رنگِ پریدہ ہم ہی نہ تھے جھکا…
Read Moreخالد علیم
موسمِ یخ میں کوئی خاک بسر سیلانی ڈھونڈتا پھرتا تھا گم گشتہ سفر پانی میں
Read More