نوید صادق ساتواں دن ’’ساتواں دن‘‘ عماد اظہر کا تازہ اور میری معلومات کے مطابق دوسرا شعری مجموعہ ہے۔ ان کا پہلا شعری مجموعہ ’’وجود‘‘ میری نظر سے نہیں گزرا۔ سو میں ہرگز یہ کہنے کی پوزیشن میں نہیں ہوں کہ’’ وجود‘‘ میں ان کی شاعری کس رخ، کس طور رواں رہی، تاہم ایک بات قیاس کے سہارے کہنا ممکن ہے اور وہ یہ کہ پہلی کتاب کا عنوان جس طرف اشارے دے رہا ہے، ان کے سہارے ’’ساتواں دن ‘ ‘ کو ’’وجود‘‘ کی ایکسٹینشن کہنا ممکن ہے۔’’کن‘‘، ’’سات…
Read MoreMonth: 2022 جنوری
شفیق آصف ۔۔۔ چھا گئی رات شام سے پہلے
چھا گئی رات شام سے پہلےکیا ہوئی مات شام سے پہلے اک ملاقات خواب میں ممکناک ملاقات شام سے پہلے کچھ مناجات رات کو ہوں گیکچھ مناجات شام سے پہلے مل گیا دن میں وہ ستارا نمابن گئی بات شام سے پہلے ڈھونڈتے ہیں دیے شفیق آصفکون تھا ساتھ شام سے پہلے
Read Moreعابد سیال ۔۔۔ بنائے رنج فراہم تو ہے کہیں نہ کہیں
بنائے رنج فراہم تو ہے کہیں نہ کہیں نظر نہ آتا ہو، اک غم تو ہے کہیں نہ کہیں جو ہر خوشی کے کنارے بھگوئے رکھتا ہے نمک ملا ہوا اِک نم تو ہے کہیں نہ کہیں کرید اور ذرا ممکنت کی درزوں کو پکارتا ہے جو پیہم تو ہے کہیں نہ کہیں تو لاعلاج نہیں، نارسا ہے زخمِ وجود تجھے ملا نہیں، مرہم تو ہے کہیں نہ کہیں وہ جس کے آنے کی آہٹ ہے تیرے لہجے میں کوئی گریز کا موسم تو ہے کہیں نہ کہیں ہے ایک…
Read Moreاحمد فراز
ایسی تاریکیاں آنکھوں میں بسی ہیں کہ فراز رات تو رات ہے ہم دن کو جلاتے ہیں چراغ
Read Moreخاطر غزنوی
جب اُس زُلف کی بات چلی ڈھلتے ڈھلتے رات ڈھلی
Read Moreمحسن احسان
تھی جن کی لَو سے دیار سخن میں تابانی وہ طاق طاق چراغِ ہنر پرانے تھے
Read Moreناصر علی سید
میں اپنی فکر کی تجسیم کس طرح سے کروں بریدہ دست ہوں اور شہرِ بے ہنر میں ہوں
Read Moreاکبر الہ آبادی
حسن کے باب میں اکبر کی سند ٹھیک نہیں یہ تو ہر اک بتِ کم سِن کو پری کہتے ہیں
Read Moreرحمان حفیظ ۔۔۔ کہیں مٹایا گیا تو کہیں بنایا گیا
کہیں مٹایا گیا تو کہیں بنایا گیا میں اُتنا یاد رہا جس قدر بھلایا گیا تری تلاش میں چھانی ہے کائنات تمام میں اپنی ذات کے اندر بھی کتنا آیا گیا کوئی زمیں نہیں نا سازگارِ عشق یہاں یہ پھول وہ ہے جو آنکھوں میں بھی کھلایا گیا بفیضِ پائے تخیل، بزورِ فکرِ رسا جہاں میں تھا ہی نہیں، اس جگہ بھی پایا گیا کچھ آفتاب صفت لفظ میری پشت پہ ہیں سو آنے والے دنوں میں بھی میرا سایہ گیا ہمارے لفظ سے معنی تلک جو حائل تھا نظر…
Read Moreخالد علیم ۔۔۔ اِدھر اُدھر کی مثالوں میں ایک مَیں بھی سہی
اِدھر اُدھر کی مثالوں میں ایک مَیں بھی سہی ترے عجیب سوالوں میں ایک مَیں بھی سہی کشودہ کار بہ پیرایۂ جمال ہے کون خراب و خستہ مقالوں میں ایک مَیں بھی سہی بہت سے لوگ ہمیں چھوڑ کر روانہ ہوئے سو اتنے چھوڑنے والوں میں ایک مَیں بھی سہی لہو جگر کا ہے، آنکھوں سے بہنے والا ہے چلیں، چھلکتے پیالوں میں ایک مَیں بھی سہی کل اُس نگر میں تھا آزردگانِ دل کا ہجوم تو آج اُن کے حوالوں میں ایک مَیں بھی سہی خدا کا شکر کہ…
Read More