کرید اور ذرا ممکنت کی درزوں کو پکارتا ہے جو پیہم تو ہے کہیں نہ کہیں
Read MoreTag: Abid sial
عابد سیال ۔۔۔ بنائے رنج فراہم تو ہے کہیں نہ کہیں
بنائے رنج فراہم تو ہے کہیں نہ کہیں نظر نہ آتا ہو، اک غم تو ہے کہیں نہ کہیں جو ہر خوشی کے کنارے بھگوئے رکھتا ہے نمک ملا ہوا اِک نم تو ہے کہیں نہ کہیں کرید اور ذرا ممکنت کی درزوں کو پکارتا ہے جو پیہم تو ہے کہیں نہ کہیں تو لاعلاج نہیں، نارسا ہے زخمِ وجود تجھے ملا نہیں، مرہم تو ہے کہیں نہ کہیں وہ جس کے آنے کی آہٹ ہے تیرے لہجے میں کوئی گریز کا موسم تو ہے کہیں نہ کہیں ہے ایک…
Read Moreعابد سیال
دلا! اب ایسی تمنا کا کیا کیا جائےجہاں جہاں تو پکارے وہیں وہیں کوئی ہو
Read Moreعابد سیال
عابد سیال ۔۔۔ تازہ دن کی ہَوا
تازہ دن کی ہَوا ______ ………….. گزرتی ہے شاخ در شاخ سرسراتی ہوئی کونپلیں، پھول، ڈالیاں، پتے نرم لہجوں میں بات کرتے ہیں باغ کی گفتگو مہکتی ہے ایک پتے کی خوش کلامی سے
Read Moreنعت رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم ۔۔۔ عابد سیال
خیالِ طیبہ و یاد ِحرم مسلسل ہے چھلکتا آنکھ سے دوری کا غم مسلسل ہے ان آنگنوں سے گزرتی نہیں ہوائے ملال جہاں جہاں وہ نگاہِ کرم مسلسل ہے مرے بھٹکنے کا امکان ہی نہیں کوئی نگاہ میں وہ شبیہِ قدم مسلسل ہے جو لمحہ ان سے ہے منسوب باقی ہے ورنہ رواں یہ قافلہ سوئے عدم مسلسل ہے زمانے جھکتے چلے جا رہے ہیں اس جانب مدارِ وقت اسی چوکھٹ پہ خم مسلسل ہے
Read Moreعابد سیال ۔۔۔ سنو تو بولتا ہے، جاگتا، دھڑکتا ہے
سنو تو بولتا ہے، جاگتا، دھڑکتا ہے غزل کے سینے میں مصرع مرا دھڑکتا ہے ہے اضطراب و توازن کے تال میل سے شعر ردیف ٹھہری ہوئی، قافیہ دھڑکتا ہے قدم کی چاپ سے لے کر لہو کی لرزش تک خفی خفی کوئی آسیب سا دھڑکتا ہے نواحِ دل کسی ہلچل پہ آنکھ پھڑکی ہے کہاں کا وہم ہے اور کس جگہ دھڑکتا ہے ہے آنکھ اپنے ہی پانی میں ڈوب کر زندہ دل اپنے ملبے کے نیچے پڑا دھڑکتا ہے غنودہ شب نے بشارت کا خواب دیکھا تھا شعاع…
Read Moreعابد سیال ۔۔۔ ایک شب تھی
ڈاکٹر عابد سیال ۔۔۔ رُکو، وہم و شبہات کا وقت ہے
رُکو، وہم و شبہات کا وقت ہے کہاں جائو گے، رات کا وقت ہے کسی بھاری پتھر تلے دے کے دل یہ تخفیفِ جذبات کا وقت ہے بدلنے پہ اس کے نہ یوں رنج کر یہ معمولی اوقات کا وقت ہے یہ کیا دل میں ریزہ رڑَکنے لگا ابھی تو شروعات کا وقت ہے گلے خشک، پیشانیاں تر بتر عمل کے مکافات کا وقت ہے
Read Moreڈاکٹر عابد سیال ۔۔۔ دور دیسوں سے بلائے بھی نہیں جا سکتے
دور دیسوں سے بلائے بھی نہیں جا سکتے وہ پکھیرو جو بھلائے بھی نہیں جا سکتے تُرش خُو، تیز مزہ پھل ہیں یہاں کے اور ہم بنا چکھے، بنا کھائے بھی نہیں جا سکتے حیرتِ مرگ، بلاوا ہے یہ اس جانب سے جس طرف دھیان کے سائے بھی نہیں جا سکتے کرچی کرچی کی چبھن سہنا بھی آسان نہیں خواب آنکھوں سے چھپائے بھی نہیں جا سکتے کچھ جو کہتا ہوں تو پھر اپنا ہی دل کٹتا ہے لوگ اپنے ہیں رُلائے بھی نہیں جا سکتے
Read More