عابد سیال ۔۔۔ سنو تو بولتا ہے، جاگتا، دھڑکتا ہے

سنو تو بولتا ہے، جاگتا، دھڑکتا ہے
غزل کے سینے میں مصرع مرا دھڑکتا ہے

ہے اضطراب و توازن کے تال میل سے شعر
ردیف ٹھہری ہوئی، قافیہ دھڑکتا ہے

قدم کی چاپ سے لے کر لہو کی لرزش تک
خفی خفی کوئی آسیب سا دھڑکتا ہے

نواحِ دل کسی ہلچل پہ آنکھ پھڑکی ہے
کہاں کا وہم ہے اور کس جگہ دھڑکتا ہے

ہے آنکھ اپنے ہی پانی میں ڈوب کر زندہ
دل اپنے ملبے کے نیچے پڑا دھڑکتا ہے

غنودہ شب نے بشارت کا خواب دیکھا تھا
شعاع ِصبح میں اک معجزہ دھڑکتا ہے

Related posts

Leave a Comment