سید آل احمد ۔۔۔ ویران کر دیا بھرا جنگل پڑائو نے

ویران کر دیا بھرا جنگل پڑائو نے رکھا ہے دل میں سبز قدم کس لگائو نے   بے لطف دوستی کے سفر نے تھکا دیا ساحل پہ دے کے مارا بھنور سے جو نائو نے   اے دوست! زخم تہمتِ تازہ لگا کہ پھر سرسبز کر دیا ہے شجر سکھ کے گھائو نے   ان قربتوں کا ہدیۂ اخلاص کچھ تو دے خوش بخت کر دیا تجھے جن کے لگائو نے   اُن پستوں کو روح کی نزدیکیوں سے دیکھ کاٹا ہے جن کو دل کی ندی کے بہائو نے…

Read More

سید آل احمد ۔۔۔ شب کی آغوش میں سو جاتا ہوں

شب کی آغوش میں سو جاتا ہوں سنگ ہوں موم بھی ہو جاتا ہوں دل کا دروازہ کھلا مت رکھو یاد آنکھوں میں پرو جاتا ہوں جس کے لہجے میں وفا کھلتی ہو میں تو اُس شخص کا ہو جاتا ہوں دن میں سہتا ہوں بصیرت کا عذاب شام کے شہر میں کھو جاتا ہوں میری خاطر نہ تکلف کیجیے میں تو کانٹوں پہ بھی سو جاتا ہوں گاہے اظہار کو دیتا ہوں ہنر گاہے دیوالیہ ہو جاتا ہوں جب بھی بحران کا رَن پڑتا ہے میں تری ذات میں…

Read More

سید آل احمد ۔۔۔ دل کا شیشہ ٹوٹ گیا آوازے سے

دل کا شیشہ ٹوٹ گیا آوازے سے تیرا پیار بھی کم نکلا اندازے سے تم جو میری بات سنے بن چل دیتے رات لپٹ کر رو دیتا دروازے سے رنجِ سکوں تو ترکِ وفا کا حصہ تھا سوچ کے کتنے پھول کھلے خمیازے سے آنکھیں پیار کی دھوپ سے جھلسی جاتی ہیں روشن ہے اب چہرہ درد کے غازے سے تیرا دُکھ تو ایک لڑی تھا خوشیوں کی تار الگ یہ کس نے کیا شیرازے سے کتنے سموں کے شعلوں پر اک خواب جلے کتنی یادیں سر پھوڑیں دروازے سے…

Read More

عید ۔۔۔ سید آلِ احمد

عید ۔۔۔۔ انبساطِ حیات کیا کہیے روحِ احساس مسکرائی ہے مجھ کو خود تو خبر نہیں، لیکن لوگ کہتے ہیں: عید آئی ہے (۱۹۵۶ء) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مجموعہ کلام : صریرِ خامہ ناشر: سخن کدہ، احمد نگر، بہاول پور مطبوعہ: گردیزی پریس بہاول پور سنِ اشاعت: ۱۹۶۴ء

Read More

کھلا تھا اک یہی رستہ تو اور کیا کرتا ۔۔ سید آلِ احمد

کُھلا تھا اِک یہی رستہ تو اور کیا کرتا نہ دیتا ساتھ ہَوا کا تو اور کیا کرتا بہت دنوں سے پریشان تھا جدائی میں جو اَب بھی تجھ سے نہ ملتا تو اور کیا کرتا نہ کوئی دشتِ تسلی‘ نہ ہے سکون کا شہر اُجالتا جو نہ صحرا تو اور کیا کرتا بشر تو آنکھ سے اندھا تھا، کان سے بہرہ تجھے صدا جو نہ دیتا تو اور کیا کرتا مرے سفر میں مَحبت کا سائبان نہ تھا بدن پہ دھوپ نہ مَلتا تو اور کیا کرتا ترے حضور…

Read More

غزل ۔۔۔ منجمد ہو گیا لہو دل کا ۔۔۔ سید آلِ احمد

منجمد ہو گیا لہو دل کا تیرے غم کا چراغ کیا جلتا وہ بھی دن تھے کہ اے سکونِ نظر! تو مری دسترس سے باہر تھا بجھ گئی پیاس آخرش اے دل! ہو گیا خشک آنکھ کا دریا تو مرا پیار مجھ کو لوٹا دے جانے والے! اُداسیاں نہ بڑھا پاسِ خاطر ہے شہر میں کس کو کون کرتا ہے اعترافِ وفا تیری خواہش، بھنور بھنور ساحل میری منزل، سکوت کا صحرا پوچھتی تھی خزاں بہار کا حال شاخ سے ٹوٹ کر گرا پتا کیسے ٹھہرے ہو سوچ میں احمدؔ…

Read More

دوشِ ہوا کے سات بہت دُور تک گئی ….. سید آلِ احمد

دوشِ ہوا کے سات بہت دُور تک گئی خوشبو اُڑی تو رات بہت دُور تک گئی بادل برس رہا تھا کہ اک اجنبی کی چاپ شب‘ رکھ کے دل پہ ہات بہت دور تک گئی یہ اور بات لب پہ تھی افسردگی کی مہر برقِ تبسمات بہت دُور تک گئی خورشید کی تلاش میں نکلا جو گھر سے مَیں تاریکیٔ حیات بہت دور تک گئی احمدؔ سفر کی شام عجب مہرباں ہوئی اک عمر میرے سات بہت دور تک گئی

Read More

غزل ۔۔۔ سوچ کی دستک نہیں یادوں کی خوشبو بھی نہیں

سوچ کی دستک نہیں، یادوں کی خوشبو بھی نہیں زیست کے بے خواب گھر میں کوئی جگنو بھی نہیں نااُمیدی! تیرے گھیرائو سے ڈر لگنے لگا دھڑکنوں کے دشت میں اک چشمِ آہو بھی نہیں جسم کے حساس پودے کو نمو کیسے ملے قرب کی ٹھنڈی ہوا کیا، کرب کی لو بھی نہیں ہم سفر ہیں مصلحت کا خول سب پہنے ہوئے دوستی کیا اب کوئی تسکیں کا پہلو بھی نہیں ضبط کے گہرے سمندر کو تموج بخش دے پیار کی جلتی ہوئی آنکھوں میں آنسو بھی نہیں وقت نے…

Read More

غزل ۔۔۔۔ میں ہوں دھوپ اور تو سایا ہے سب کہنے کی باتیں ہیں

میں ہوں دھوپ اور تو سایا ہے سب کہنے کی باتیں ہیں جگ میں کس کا کون ہوا ہے سب کہنے کی باتیں ہیں من مورکھ ہے‘ مت سمجھائو‘ کرنی کا پھل پائے گا چڑھتا دریا کب ٹھہرا ہے سب کہنے کی باتیں ہیں تم تو اب بھی مجھ سے پہروں دھیان میں باتیں کرتے ہو ترکِ تعلق کیا ہوتا ہے سب کہنے کی باتیں ہیں جانے والے‘ حد یقیں تک ہم نے جاتے دیکھے ہیں واپس لوٹ کے کون آتا ہے سب کہنے کی باتیں ہیں میں سوچوں کی…

Read More

غزل ۔۔۔۔۔۔۔ اگر میں ڈوب گیا تھا تو پھر سے اُبھرا کیوں؟

اگر میں ڈوب گیا تھا تو پھر سے اُبھرا کیوں بتا اے موجہء گرداب! یہ تماشا کیوں مجھے پتہ ہے ترے دل کی دھڑکنوں میں ہوں میں ورنہ دُکھ کی کڑی دوپہر میں جلتا کیوں رہِ طلب میں مسلسل تھکن سے خائف ہوں سکوں جو ہاتھ نہ آئے، سفر ہو لمبا کیوں یہ امتحاں تو نمودِ وفا کا جوہر تھا اُسے یقین جو ہوتا، مجھے رُلاتا کیوں یہ پائے زیست میں زنجیرِ بے یقینی کیا رکھا ہے ہم کو لبِ جو بھی اتنا تشنہ کیوں ابھی تو اگلے ہی زخموں…

Read More