کیف مراد آبادی ۔۔۔ اہل دل جو بھی بات کہتے ہیں

اہلِ دل جو بھی بات کہتے ہیں کوئی رازِ حیات کہتے ہیں ان کے غم سے ہے جاوداں‘ ورنہ زیست کو بے ثبات کہتے ہیں ہائے وہ دورِ عشق جب آنسو داستانِ حیات کہتے ہیں خوابِ غفلت میں جو گزرتا ہے ہم تو اس دن کو رات کہتے ہیں عشق کی اصطلاح میں غم کو انقلابِ حیات کہتے ہیں جو بھی ہیں واقفِ حقیقتِ دل دل کو ہی کائنات کہتے ہیں لفظ و معنی میں آ نہیں سکتی وہ نظر سے جو بات کہتے ہیں مردِ حق میں تو ماسوا…

Read More

جون ایلیا ۔۔۔ اپنے سب یار کام کر رہے ہیں

اپنے سب یار کام کر رہے ہیں اور ہم ہیں کہ نام کر رہے ہیں تیغ بازی کا شوق اپنی جگہ آپ تو قتل عام کر رہے ہیں داد و تحسین کا یہ شور ہے کیوں ہم تو خود سے کلام کر رہے ہیں ہم ہیں مصروفِ انتظام مگر جانے کیا انتظام کر رہے ہیں ہے وہ بے چارگی کا حال کہ ہم ہر کسی کو سلام کر رہے ہیں ایک قتالہ چاہیے ہم کو ہم یہ اعلانِ عام کر رہے ہیں کیا بھلا ساغرِ سفال کہ ہم ناف پیالے…

Read More

حفیظ جونپوری ۔۔۔ ہوئے عشق میں امتحاں کیسے کیسے

ہوئے عشق میں امتحاں کیسے کیسے پڑے مرحلے درمیاں کیسے کیسے رہے دل میں وہم و گماں کیسے کیسے سَرا میں ٹِکے کارواں کیسے کیسے گھر اپنا غم و درد سمجھے ہیں دل کو بنے میزباں‘ میہماں کیسے کیسے شبِ ہجر باتیں ہیں دیوار و در سے ملے ہیں مجھے رازداں کیسے کیسے دکھاتا ہے دن رات آنکھوں کو میری سیاہ و سفید آسماں کیسے کیسے جو کعبے سے نکلے‘ جگہ دیر میں کی ملے ان بتوں کو مکاں کیسے کیسے فرشتے بھی گھائل ہیں تیرِ ادا کے نشانہ ہوئے…

Read More

امیر مینائی

قریب ہے یارو روزِ محشر چھپے گا کشتوں کا خون کیوں کر جو چُپ رہے گی زبانِ خنجر لہو پکارے گا آستیں کا

Read More

ڈاکٹر اختر شمار ۔۔۔۔ میرا دشمن بھی خاندانی ہو

Read More

سجاد حسین ساجد ۔۔۔ وجودِ ذات میں روشن جہان کیسے لگے

وجودِ ذات میں روشن جہان کیسے لگے مکاں میں رہتے ہوے لا مکان کیسے لگے سجا کے آنکھ میں لاشے حسین خوابوں کے وفا کے لٹتے ہوے کاروان کیسے لگے میں ممکنات سے لمحے چرا کے لایا ہوں جو درد تونے کیے مجھ کو دان، کیسے لگے لطیف وقت تھا جو تیرے ساتھ بیت گیا جو ٹوٹے ہجرکے پھر آسمان، کیسے لگے تجھے کہا تھا: محبت فریب دیتی ہے سجائے عشق کے دل پر نشان، کیسے لگے ہوا کے زور سے گر تو گئے درخت‘ مگر پرندے پھرتے ہوے بے…

Read More

سید آل احمد ۔۔۔ زرد جذبے ہوں تو کب نشوونما ملتی ہے

زرد جذبے ہوں تو کب نشوونما ملتی ہےفن کو تہذیب کی بارش سے جِلا ملتی ہے سر میں سودا ہے تو چاہت کے سفرپر نکلیںکرب کی دھوپ طلب سے بھی سوا ملتی ہے کون سی سمت میں ہجرت کا ارادہ باندھیںکوئی بتلائے کہاں تازہ ہوا ملتی ہے چاند چہرے پہ جواں قوسِ قزح کی صورتتیری زُلفوں سے گھٹاؤں کی ادا ملتی ہے ہم تو پیدا ہی اذیت کے لیے ہوتے ہیںہم فقیروں سے تو دُکھ میں بھی دُعا ملتی ہے کتنا دُشوار ہے اب منزلِ جاناں  کا سفرخواہش قربِ بدن…

Read More

مرزا جعفر علی خاں اثر لکھنوی

ہم نے رو رو کے رات کاٹی ہے آنسوئوں پر یہ رنگ تب آیا

Read More

رخسانہ صبا … چشمِ فردا کے لیے اور تو کیا لائی ہوں میں

چشمِ فردا کے لیے اور تو کیا لائی ہوں میں ہجر کا لمحہِ سفاک اٹھالائی ہوں میں میری آنکھوں میں جو بھردی تھی تری قربت نے بس اسی ریت سے اک دشت بنا لائی ہوں میں جانتی تھی کہ کھلیں گے نہ کبھی بند کواڑ رایگانی کے لیے اپنی صدا لائی ہوں میں کوزہ گر خود مری شوریدہ سری میں گم ہے اپنی مٹی کے لیے چاک نیا لائی ہوں میں تو یہ سمجھا کہ مجھے تیری طلب ہے لیکن تیرے ہونٹوں کے لیے حرف دعا لائی ہوں میں جس…

Read More

آصف شفیع … صدیوں سے اجنبی

صدیوں سے اجنبی ……………………. اُس کی قربت میں بیتے سب لمحے میری یادوں کا ایک سرمایہ خوشبوئوں سے بھرا بدن اس کا دل کو بھاتا تھا بانکپن اُس کا شعلہ افروز حسن تھا اُس کا دلکشی کا وہ اک نمونہ تھی مجھ سے جب ہمکلام ہوتی تھی خواہشوں کے چمن میں ہر جانب چاہتوں کے گلاب کھلتے تھے اُس کی قربت میں ایسے لگتا تھا اک پری آسماں سے اتری ہو جب کبھی میں یہ پوچھتا اُس سے ساتھ میرے چلو گی تم کب تک مجھ سے قسمیں اُٹھا کے…

Read More