ہم نے رو رو کے رات کاٹی ہے آنسوئوں پر یہ رنگ تب آیا
Read MoreTag: Khan
میاں داد خاں سیاح
شاید انھیں بہ طرزِ فسانہ کوئی سنائے کہتے ہیں اپنا حال ہر اک قصہ خواں سے ہم
Read Moreمیاں داد خاں سیاح
تیز رو جتنے تھے سب بیٹھ گئے تھک تھک کر نہ ہوئی طے رہِ اُلفت کی زمیں تھوڑی سی
Read Moreمژدم خان ۔۔۔ کس کو روشن بنا رہے ہو تم ؟
کس کو روشن بنا رہے ہو تم ؟ اِتنا جو بجھتے جا رہے ہو تم گاؤں کی جھاڑیاں بتا رہی ہیں شہر میں گُل کِھلا رہے ہو تم ایک تو ہم اُداس ہیں اُس پر شاعروں کو بُلا رہے ہو تم اور کس نے تمھیں نہیں دیکھا اور کس کے خدا رہے ہو تم پھول کس نے قبول کرنے ہیں جب تلک مسکرا رہے ہو تم
Read Moreغالب ۔۔۔ دہر میں نقشِ وفا وجہ ِتسلی نہ ہوا
دہر میں نقشِ وفا وجہ ِتسلی نہ ہوا ہے یہ وہ لفظ کہ شرمندۂ معنی نہ ہوا سبزۂ خط سے ترا کاکلِ سرکش نہ دبا یہ زمرد بھی حریفِ دمِ افعی نہ ہوا میں نے چاہا تھا کہ اندوہِ وفا سے چھوٹوں وہ ستمگر مرے مرنے پہ بھی راضی نہ ہوا دل گزر گاہ خیالِ مے و ساغر ہی سہی گر نفَس جادہ سرمنزلِ تقوی نہ ہوا ہوں ترے وعدہ نہ کرنے پہ بھی راضی کہ کبھی گوش منت کشِ گلبانگِ تسلّی نہ ہوا کس سے محرومئ قسمت کی شکایت…
Read Moreاسداللہ خاں غالب ۔۔۔ شوق، ہر رنگ رقیبِ سروساماں نکلا
شوق، ہر رنگ رقیبِ سروساماں نکلا قیس تصویر کے پردے میں بھی عریاں نکلا زخم نے داد نہ دی تنگئ دل کی یارب! تیر بھی سینۂ بسمل سے پَرافشاں نکلا بوئے گل، نالۂ دل، دودِ چراغِ محفل جو تری بزم سے نکلا، سو پریشاں نکلا دلِ حسرت زدہ تھا مائدۂ لذتِ درد کام یاروں کا بہ قدرٕ لب و دنداں نکلا اے نو آموزِ فنا ہمتِ دشوار پسند! سخت مشکل ہے کہ یہ کام بھی آساں نکلا شوخئِ رنگِ حنا خونِ وفا سے کب تک آخر اے عہد شکن! تو…
Read Moreاسداللہ خاں غالب ۔۔۔ دل مرا سوز ِنہاں سے بے محابا جل گیا
دل مرا سوز ِنہاں سے بے محابا جل گیا آتش خاموش کی مانند گویا جل گیا دل میں ذوقِ وصل و یادِ یار تک باقی نہیں آگ اس گھر میں لگی ایسی کہ جو تھا جل گیا میں عدم سے بھی پرے ہوں، ورنہ غافل! بارہا میری آہِ آتشیں سے بالِ عنقا جل گیا عرض کیجے جوہرِ اندیشہ کی گرمی کہاں؟ کچھ خیال آیا تھا وحشت کا کہ صحرا جل گیا دل نہیں، تجھ کو دکھاتا ورنہ داغوں کی بہار اِس چراغاں کا کروں کیا کارفرما جل گیا میں ہوں…
Read Moreاسداللہ خاں غالب
ہے کہاں تمنّا کا دوسرا قدم یا رب ہم نے دشتِ امکاں کو ایک نقشِ پا پایا
Read Moreغالب
بقدرِ ظرف ہے ساقی! خمارِ تشنہ کامی بھی جوتو دریائے مے ہے، تو میں خمیازہ ہوں ساحل کا
Read Moreمیاں داد خاں سیاح
ہماری جان کے پیچھے پڑا ہے دلِ ناداں کو سمجھائیں کہاں تک
Read More