وہ جو نہیں ہیں بزم میں بزم کی شان بھی نہیں پھول ہیں دل کشی نہیں، چاند ہے چاندنی نہیں ڈھونڈا نہ ہو جہاں انہیں ایسی جگہ کوئی نہیں پائی کچھ ان کی جب خبر اپنی خبر ملی نہیں آنکھ میں ہو پرکھ تو دیکھ حسن سے پر ہے کل جہاں تیری نظر کا ہے قصور جلووں کی کچھ کمی نہیں عشق میں شکوہ کفر ہے اور ہر التجا حرام توڑ دے کاسۂ مراد، عشق گداگری نہیں جوشِ جنونِ عشق نے کام مرا بنا دیا اہلِ خرد کریں معاف حاجتِ…
Read MoreTag: اثر
مرزا جعفر علی خاں اثر لکھنوی
ہم نے رو رو کے رات کاٹی ہے آنسوئوں پر یہ رنگ تب آیا
Read Moreمیر اثر
وائے غفلت کہ ایک ہی دم میں مَیں کہیں اور کاروان کہیں
Read Moreکرشن کمار طور ۔۔۔ طلسم گردش دست ہنر جہاں کم ہے
مرزا جعفر علی خاں اثر لکھنوی
چل گیا اُس نگاہ کا جادو کہہ گئے دل کی بات، کیا کہیے
Read Moreمیر اثر
کر دیا کچھ سے کچھ ترے غم نے اب جو دیکھا تو وہ اثر ہی نہیں
Read Moreسیاسی نجومی اور کرونا وائرس ۔۔۔ نوید صادق
میرا پاکستان ۔۔۔۔۔ سیاسی نجومی اور کرونا وائرس ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پاکستان شاید دنیا کا واحد ملک ہو جس میں ہر شخص ڈاکٹر، ہر فرد انجینئر ، ہر ذی روح ۔۔۔۔ انگریزی کی مشہور کہاوت Jack of all trades but master of none شاید ہم سے بہتر کسی اور قوم پر صادق نہ آتی ہو۔ اب اس کورونا ہی کو لے لیجیے، ریڑھی بان سے سیاست دان تک ۔۔۔ ایک سے ایک نجومی کارگاہِ کورونا میں دخل در نامعقولات کرتا ملے گا۔ یہ شاید ہماری قومی فطرت کا حصہ بن چکا ہے۔…
Read Moreبدل گئی ہے بہت آس پاس کی صورت (غلام حسین ساجد) ۔۔۔۔ نوید صادق
بدل گئی ہے بہت آس پاس کی صورت (دیباچہ: مجموعہ کلام "اعادہ”) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ستر کی دہائی اُردو غزل میں ایک انقلاب کی دہائی ہے۔ ثروت حسین، محمد اظہارالحق اور غلام حسین ساجد اِس انقلاب کے بڑوں میں سے نمایاں نام ہیں۔ثروت حسین نے ایک قلیل عرصۂ شعر میں اپنے انمول اور انمٹ نقوش ثبت کرنے کے بعد موت کو گلے لگا لیا، محمد اظہارالحق کچھ عرصہ بعد تقریباً خاموش ہو گئے۔ اب ان کی کبھی کبھار کوئی غزل نظر پڑتی بھی ہے تو یہی احساس ہوتا ہے کہ وہ ستّر…
Read Moreکاروبار …… مصطفیٰ زیدی
کاروبار ۔۔۔۔۔۔۔ دماغ شل ہے ، دل ایک اک آرزو کا مدفن بنا ہوا ہے اِک ایسا مندر جو کب سے چمگادڑوں کا مسکن بنا ہوا ہے نشیب میں جیسے بارشوں کا کھڑا ہوا بےکنار پانی بغیر مقصد کی بحث ، اخلاقیات کی بےاثر کہانی سحر سے بےزار، رات سے بےنیاز لمحات سے گُریزاں نہ فِکرِ فردا نہ حال و ماضی، نہ صبحِ خنداں ، نہ شامِ گِریاں پُکارتا ہے کوئی تو کہتا ہوں اِس کو سن کر بھی کیا کرو گے اِدھر گزر کر بھی کیا ملے گا ،…
Read Moreآرزو لکھنوی ۔۔۔۔۔۔ نہ کر تلاشِ اثر، تیر ہے، لگا نہ لگا
نہ کر تلاشِ اثر، تیر ہے، لگا نہ لگا جو اپنے بس کا نہیں، اُس کا آسرا نہ لگا حیات لذتِ آزار کا ہے دوسرا نام نمک چھڑک تو چھڑک، زخم پر دوا نہ لگا مرے خیال کی دنیا میں اس جہان سے دور یہ بیٹھے بیٹھے ہوا گم کہ پھر پتا نہ لگا خوشی یہ دل کی ہے، اس میں نہیں ہے عقل کو دخل بُرا وہ کہتے رہے اور کچھ بُرا نہ لگا چمک سے برق کی، کم تر ہے وقفہِ دیدار نظر ہٹی کہ اُسے ہاتھ اک…
Read More