شبیر نازش ۔۔۔ وقت کی اوٹ سے

وقت کی اوٹ سے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مَیں نے دیکھا اُسے اُس کے لرزیدہ ہونٹوں پہ پَپڑی کی تہہ میں ابھی تک مرا لَمس تازہ ہی تھا دودھیائی ہوئی اُس کی آنکھوں کے پیچھے مرا عکس شفّاف تھا جھریوں سے بھرے ماند پڑتے ہوئے اُس کے رُخسار پر جو کبھی سُرخ تھے آنسوؤں کی گزرگاہ کے پاس ابھی تک وہ بوسہ حیا سے گلابی گلابی سا تھا عشق میں اِنتظار اورصبر کے بار سے سروقامت سراپا خمیدہ ہُوا جا رہا تھا مگر اِنتظار ایسے کھینچا گیا جیسے پیوست نیزے کو مضبوط ہاتھوں…

Read More

حفیظ ہوشیارپوری ۔۔۔ اب کوئی آرزو نہیں ذوقِ پیام کے سوا

اب کوئی آرزو نہیں، ذوقِ پیام کے سوا اب کوئی جستجو نہیں، شوقِ سلام کے سوا کوئی شریکِ غم نہیں، اب تری یاد کے بغیر کوئی انیسِ دِل نہیں اب ترے نام کے سوا تیری نگاہِ مست سے مجھ پہ یہ راز کھل گیا اور بھی گردشیں ہیں کچھ، گردشِ جام کے سوا کاہشِ آرزو سہی حاصلِ زندگی، مگر حاصلِ آرزو ہے کیا، سوزِ مدام کے سوا آہ کوئی نہ کر سکا چارۂ تلخئ فراق نالۂ صبح کے بغیر، گریۂ شام کے سوا رنگِ بہار پر نہ بھول، بوئے چمن…

Read More

سید علی مطہر اشعر ۔۔۔ کس طرح نزدیک تر ہوں فاصلے کیسے گھٹائیں

کس طرح نزدیک تر ہوں فاصلے کیسے گھٹائیں پھول سے چہرے ہیں لیکن پتھروں جیسی انائیں خوف کی بنیاد پر اُٹھے ہیں بچوں کے بدن بوئے خوں لاتی رہی ہیں گھر میں مقتل کی ہوائیں آپ کی خوشیوں کے گہوارے خدا قائم رکھے آیئے ہم آپ کو اپنا عزا خانہ دکھائیں رابطہ رہتا ہے ساری رات دیواروں کے ساتھ گفتگو کرتی ہے مجھ سے گھر کی سائیں سائیں پیرہن تیرا ہی جیسا ہم بھی لے آئیں، مگر اپنے چہرے سے نقوشِ مفلسی کیسے مٹائیں ہم بھی ان سے گفتگو کر…

Read More

اسداللہ خاں غالب ۔۔۔ صحرا، مگر، بہ تنگئ چشمِ حُسود تھا

جز قیس اور کوئی نہ آیا بروئے کار صحرا، مگر، بہ تنگئ چشمِ حُسود تھا آشفتگی نے نقشِ سویدا کیا درست ظاہر ہوا کہ داغ کا سرمایہ دود تھا تھا خواب میں خیال کو تجھ سے معاملہ جب آنکھ کھل گئی نہ زیاں تھا نہ سود تھا لیتا ہوں مکتبِ غمِ دل میں سبق ہنوز لیکن یہی کہ رفت گیا اور بود تھا ڈھانپا کفن نے داغِ عیوبِ برہنگی میں، ورنہ ہر لباس میں ننگِ وجود تھا تیشے بغیر مر نہ سکا کوہکن اسد سرگشتۂ خمارِ رسوم و قیود تھا

Read More

ظفر اکبر آبادی ۔۔۔ کبھی کبھی تو اس انداز سے ملا کوئی

کبھی کبھی تو اس انداز سے ملا کوئی مجھے بھی مجھ سے بہت دور لے گیا کوئی وہاں کسی کو مخاطب کرے تو کیا کوئیجہاں نہ ہو کسی آواز پر صدا کوئی گزر رہا ہوں اب ان منزلوں سے مَیں کہ جہاںترے پیام بھی لاتی نہیں صبا کوئی تو اپنی خود غرضی سے بھی کاش ہو آگاہ دکھائے کاش تجھے تیرا آئنہ کوئی سبک خرام، سبک رو تھا وقت کچھ اتنا کہ ساتھ چند قدم بھی نہ چل سکا کوئی نوازتا رہا زخموں سے تو کسی کو، مگر جواب میں…

Read More

رانا سعید دوشی ۔۔۔ میں نے بخشے ہیں ترے نام کو بھی خال و خد

مَیں نے بخشے ہیں ترے نام کو بھی خال و خد مَیں کہیں زیر زبر ہوں تو کہیں پیش و شد مَیں جسے سجدہ کروں بھاگ جگا دیتا ہوں مجھ سے پاتے ہیں سبھی سنگ خدائی کی سند ہندسے سارے ترے صفر فقط میرا تھا ضرب کھاتے ہی ہوئے صفر ترے سارے عدد تجھ سے بونے تو مرے ٹخنوں تلک آتے ہیں کون سے منہ سے چلا ناپنے تو میرا قد حد سے بڑھنا نہیں اچھا مجھے تسلیم، مگر تو مجھے یہ تو بتا پیار کی بھی ہے کوئی حد…

Read More

پھر وہی تجربہ ۔۔۔ رفعت سروش

پھر وہی تجربہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سانس اندر سے رُک رُک کے اوپر اُٹھے جیسے مٹھی میں باندھے کوئی، چھوڑ دے اور پھر باندھ لے اور پھر چھوڑ دے اک دُھواں ہانپتا، کانپتا، چیختا، کھانستا گھیر لے پورے اعصاب کو ایسا محسوس ہو موت اور زیست کے درمیاں ہوں معلق، مگر سانس کی آس جب ٹوٹنے سی لگے کوئی پھر دوڑ کر باندھ لے پھر وہی تجربہ! ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ماہ نامہ زاویہ، نیویارک مدیر: جوہر میر جلد : چہارم، شمارہ: چہارم تا نہم اشاعت: ستمبر ۲۰۰۳ء

Read More

مجروح سلطان پوری

نہ مٹ سکیں گی یہ تنہائیاں، مگر، اے دوست! جو تُو بھی ہو تو طبیعت ذرا بہل جائے

Read More

کہانی ۔ ۔ ۔ حامد یزدانی

کہانی ۔۔۔ ’’ کہانی سُنائیے ناں، پاپا! مجھے نیند نہیں آرہی‘‘۔ ’’نہیں آج نہیں بیٹا، بہت تھکن ہو گئی آج تو ۔۔۔‘‘ ’’ کِسے؟ کہانی کو ؟‘‘ ’’ ارے نہیں، مجھے ۔۔۔ دن بھر کی مصروفیات نے تھکا کر رکھ دیا ہے۔ کل سُن لینا کہانی ۔۔۔ ضرور سناؤں گا کل ۔۔۔‘‘ ’’ یہ بات تو آپ نے کل بھی کی تھی ۔۔۔۔ مگر آج سنا نہیں رہے ۔۔۔ بس آج تو میں ۔۔۔‘‘ ’’اچھا، بابا، اچھا ۔۔۔کہو، کون سی کہانی سنو گے ۔۔۔؟‘‘ ’’کوئی سی بھی ۔۔۔‘‘ ’’ پھر…

Read More

بدل گئی ہے بہت آس پاس کی صورت (غلام حسین ساجد) ۔۔۔۔ نوید صادق

بدل گئی ہے بہت آس پاس کی صورت (دیباچہ: مجموعہ کلام "اعادہ”) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ستر کی دہائی اُردو غزل میں ایک انقلاب کی دہائی ہے۔ ثروت حسین، محمد اظہارالحق اور غلام حسین ساجد اِس انقلاب کے بڑوں میں سے نمایاں نام ہیں۔ثروت حسین نے ایک قلیل عرصۂ شعر میں اپنے انمول اور انمٹ نقوش ثبت کرنے کے بعد موت کو گلے لگا لیا، محمد اظہارالحق کچھ عرصہ بعد تقریباً خاموش ہو گئے۔ اب ان کی کبھی کبھار کوئی غزل نظر پڑتی بھی ہے تو یہی احساس ہوتا ہے کہ وہ ستّر…

Read More