سید علی مطہر اشعر ۔۔۔ کس طرح نزدیک تر ہوں فاصلے کیسے گھٹائیں

کس طرح نزدیک تر ہوں فاصلے کیسے گھٹائیں پھول سے چہرے ہیں لیکن پتھروں جیسی انائیں خوف کی بنیاد پر اُٹھے ہیں بچوں کے بدن بوئے خوں لاتی رہی ہیں گھر میں مقتل کی ہوائیں آپ کی خوشیوں کے گہوارے خدا قائم رکھے آیئے ہم آپ کو اپنا عزا خانہ دکھائیں رابطہ رہتا ہے ساری رات دیواروں کے ساتھ گفتگو کرتی ہے مجھ سے گھر کی سائیں سائیں پیرہن تیرا ہی جیسا ہم بھی لے آئیں، مگر اپنے چہرے سے نقوشِ مفلسی کیسے مٹائیں ہم بھی ان سے گفتگو کر…

Read More

سید علی مطہر اشعر ۔۔۔۔۔ بستر پر کانٹوں کا بستر کر دیتے ہیں

بستر پر کانٹوں کا بستر کر دیتے ہیں اندیشے دیواروں میں دَر کر دیتے ہیں دیوانے ہی وحشت سے منسوب نہیں ہیں ایسی باتیں ہم بھی اکثر کر دیتے ہیں غزلوں میں اظہارِ حقیقت ہوتا ہے لوگوں کو حالات سخن ور کر دیتے ہیں ایسے لوگوں میں ہے بود و باش میری جو لفظوں کو ناوک و نشتر کر دیتے ہیں جب میں اُن کا اسمِ گرامی لیتا ہوں وہ میرے حالات کو بہتر کر دیتے ہیں جو باتیں سینوں میں چبھتی رہتی ہیں ہم اشعر شعروں میں اجاگر کر…

Read More

علی مطہر اشعر ۔۔۔۔۔۔ بدل رہا ہوں مسلسل لہو کو پانی میں

بدل رہا ہوں مسلسل لہو کو پانی میں کچھ ایسا کرب تھا اُس شخص کی کہانی میں کمر خمیدہ ہیں حالاتِ نا مساعد سے ضعیف ہونے لگے لوگ نو جوانی میں کوئی چراغ نہ جلنے دیا خرابوں میں ہوا تھی تیرگیِ شب کی حکمرانی میں خیال بہتے رہے اس میں خاروخس کی طرح گذشتہ شب کہ تھا دریا بڑی روانی میں امیرِ وقت! کبھی خود ملاحظہ فرما گداگروں کے اضافے کو راجدھانی میں وہ سو گیا تو بہر سمت خاک اڑنے لگی جو فرد خاص تھا گلشن کی پاسبانی میں…

Read More

سید علی مطہر اشعر ۔۔۔۔۔۔۔ نشانِ رفتگاں ابتر کھڑے ہیں

نشانِ رفتگاں ابتر کھڑے ہیں فصیلیں گر گئیں ہیں، در کھڑے ہیں پسِ منظر کوئی طوفان ہوگا کہ دم سادھے ہوئے منظر کھڑے ہیں ہمیں نے اس کے ترکش کو بھرا تھا مگر ہم بھی نشانے پر کھڑے ہیں سُنا ہے آج وہ باتیں کرے گا سماعت کے لیے پتھر کھڑے ہیں بہت سے سر کشیدہ دار پر ہیں جو باقی ہیں خمیدہ سر کھڑے ہیں ہم اپنا قد بڑھا کر کیا کریں گے غنیمت ہے کہ پیروں پر کھڑے ہیں ہزراروں لوگ میخانے میں اشعر امیدِ قطرہ ء مئے…

Read More