علی مطہر اشعر ۔۔۔ پھر وہی سوچ کہ یہ واقعہ کب دیکھتے ہیں

غزل پھر وہی سوچ کہ یہ واقعہ کب دیکھتے ہیں کون توڑے گا فُسُوں کارئ شَب‘  دیکھتے ہیں ایک ہی جیسے سَرابوں کا تسلسل ہے کہ لوگ ایک عرصے سے سرِ دشتِ طلب دیکھتے ہیں منتظر ہیں کہ کبھی بادِ سکُوں خیز چلے مُضمَحِل ہیں کہ ہواؤں کے غضب دیکھتے ہیں مژدۂ  خوبئ تعبیر ملے گا کہ نہیں دیکھیے خواب میں دیکھا ہُوا کب دیکھتے ہیں یہ بھی اِک طرزِ تکلم ہے سرِ بزم کہ ہم سب کے چہروں کی طرف مہر بہ لب  دیکھتے ہیں ہم میں اِک شخص…

Read More

سید علی مطہر اشعر ۔۔۔ کس طرح نزدیک تر ہوں فاصلے کیسے گھٹائیں

کس طرح نزدیک تر ہوں فاصلے کیسے گھٹائیں پھول سے چہرے ہیں لیکن پتھروں جیسی انائیں خوف کی بنیاد پر اُٹھے ہیں بچوں کے بدن بوئے خوں لاتی رہی ہیں گھر میں مقتل کی ہوائیں آپ کی خوشیوں کے گہوارے خدا قائم رکھے آیئے ہم آپ کو اپنا عزا خانہ دکھائیں رابطہ رہتا ہے ساری رات دیواروں کے ساتھ گفتگو کرتی ہے مجھ سے گھر کی سائیں سائیں پیرہن تیرا ہی جیسا ہم بھی لے آئیں، مگر اپنے چہرے سے نقوشِ مفلسی کیسے مٹائیں ہم بھی ان سے گفتگو کر…

Read More

اُس کی شناخت اُس کے خیالات سے بھی ہو ۔۔۔ سید علی مطہر اشعر

اُس کی شناخت اُس کے خیالات سے بھی ہو وہ آشکار اپنی کسی بات سے بھی ہو ہم اتفاق کیسے کریں اُس کی رائے سے جب منحرف وہ اپنے بیانات سے بھی ہو ممکن ہے پیش رفتِ قیامِ سکوں کے بعد اُس کا کوئی مفاد فسادات سے بھی ہو پابندیِ وفا مری میراث ہی سہی کوئی اُمید اُس کی مگر ذات سے بھی ہو اُس شخص کو مزید پرکھنے کے واسطے کچھ دن گریز خوئے مدارات سے بھی ہو چہرے بھی پڑھتے رہیے کتابوں کے ساتھ ساتھ کچھ استفادہ صورتِ…

Read More