علی مطہر اشعر ۔۔۔ پھر وہی سوچ کہ یہ واقعہ کب دیکھتے ہیں

غزل
پھر وہی سوچ کہ یہ واقعہ کب دیکھتے ہیں
کون توڑے گا فُسُوں کارئ شَب‘  دیکھتے ہیں
ایک ہی جیسے سَرابوں کا تسلسل ہے کہ لوگ
ایک عرصے سے سرِ دشتِ طلب دیکھتے ہیں
منتظر ہیں کہ کبھی بادِ سکُوں خیز چلے
مُضمَحِل ہیں کہ ہواؤں کے غضب دیکھتے ہیں
مژدۂ  خوبئ تعبیر ملے گا کہ نہیں
دیکھیے خواب میں دیکھا ہُوا کب دیکھتے ہیں
یہ بھی اِک طرزِ تکلم ہے سرِ بزم کہ ہم
سب کے چہروں کی طرف مہر بہ لب  دیکھتے ہیں
ہم میں اِک شخص بھی ناواقِفِ حالات نہیں
سب کے سب صاحبِ اِدراک ہیں، سب دیکھتے ہیں
اپنے ہاتھوں کی پُراَسرار لکیریں اشعرؔ
ہم نے پہلے کبھی دیکھی ہیں نہ اب دیکھتے ہیں

Related posts

Leave a Comment