سید علی مطہر اشعر ۔۔۔۔۔۔۔ نشانِ رفتگاں ابتر کھڑے ہیں

نشانِ رفتگاں ابتر کھڑے ہیں فصیلیں گر گئیں ہیں، در کھڑے ہیں پسِ منظر کوئی طوفان ہوگا کہ دم سادھے ہوئے منظر کھڑے ہیں ہمیں نے اس کے ترکش کو بھرا تھا مگر ہم بھی نشانے پر کھڑے ہیں سُنا ہے آج وہ باتیں کرے گا سماعت کے لیے پتھر کھڑے ہیں بہت سے سر کشیدہ دار پر ہیں جو باقی ہیں خمیدہ سر کھڑے ہیں ہم اپنا قد بڑھا کر کیا کریں گے غنیمت ہے کہ پیروں پر کھڑے ہیں ہزراروں لوگ میخانے میں اشعر امیدِ قطرہ ء مئے…

Read More