اب سمندر سے کوئی خوف نہیں

میرا پاکستان ۔۔۔۔۔۔۔ نوید صادق اب سمندر سے کوئی خوف نہیں! ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کالم لکھوں مگر کیا لکھوں … یہی کہ … لیکن ایسا بھی کیا… کالم لکھنا کوئی ایک روزہ کرکٹ میچ تو ہے نہیں کہ تکا چل گیا تو چل گیاورنہ ہار تو کہیں نہیں گئی … کرکٹ میچ … لیکن اب تو کرکٹ سے بھی ایک چڑ سی ہوتی جاتی ہے ۔ اب آپ دریافت کریں گے کہ اس چڑ ، اس بے زاری کا اصل محرک کیا ہے … لیکن یہ شخص جس نے حکومت چلانے کو…

Read More

خالی بالٹی ۔۔۔ حامد یزدانی

خالی بالٹی ۔۔۔۔۔۔۔ اب مجھے اُنہیں ڈھونڈنا ہے۔ سرکاری دورے کا آج آخری دن ہے۔ پچھلے چار دن میں مختلف رسمی ملاقاتوں اور باقاعدہ اجلاسوں میں کچھ یوں الجھا رہا کہ نہ تو قدم ڈھاکہ کی چند سرکاری عمارتوں کی سفید راہداریوں میں بھٹکتے تذبذب سے باہر نکل پائے اور نہ ہی ذہن اکڑی ہوئی کرسیوں کو کھینچ کرمستطیل میز کے قریب کرنے اور پھر گھسیٹ کر دُور کرنے کی دھیمی دھیمی گونج سے آزاد ہو پایا۔ ایک نو قائم شدہ ملک کے دارالحکومت میں مصروفیات کی ترتیب یا بے…

Read More

بدل گئی ہے بہت آس پاس کی صورت (غلام حسین ساجد) ۔۔۔۔ نوید صادق

بدل گئی ہے بہت آس پاس کی صورت (دیباچہ: مجموعہ کلام "اعادہ”) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ستر کی دہائی اُردو غزل میں ایک انقلاب کی دہائی ہے۔ ثروت حسین، محمد اظہارالحق اور غلام حسین ساجد اِس انقلاب کے بڑوں میں سے نمایاں نام ہیں۔ثروت حسین نے ایک قلیل عرصۂ شعر میں اپنے انمول اور انمٹ نقوش ثبت کرنے کے بعد موت کو گلے لگا لیا، محمد اظہارالحق کچھ عرصہ بعد تقریباً خاموش ہو گئے۔ اب ان کی کبھی کبھار کوئی غزل نظر پڑتی بھی ہے تو یہی احساس ہوتا ہے کہ وہ ستّر…

Read More

تیس منٹ ۔۔۔ حامد یزدانی

تیس منٹ ۔۔۔۔۔۔ ’’لو بھئی، سن انیس سو پچاسی کے تین سو پینسٹھ دنوں میں سے آخرِ کارایک اور دن اپنی تمام تر بیزار کن مصروفیات کے ساتھ اپنے انجام کو پہنچ گیا۔ جنگ کے دفتر تابشؔ سے ملاقات ہی تو آج کی آخری باقاعدہ مصروفیت تھی۔ سو، وہ بھی رات گیارہ بج کر بیس منٹ پر تمام ہوئی۔۔۔اور اب خیر سے گھر واپسی کا سفر۔۔۔لیکن آپ جناب یہاں کیسے۔۔۔؟‘‘ ’’مجھ سے ملنے؟ اور اِس وقت۔۔۔؟‘‘ ’’ارے نہیں، مجھے بُرا ہرگز نہیں لگا۔۔۔بس ذرا حیرانی ہوئی۔ دیکھیے، سامنے شملہ پہاڑی…

Read More

انور شعور ۔۔۔۔۔۔۔۔ گھروں میں سوتے سوتے لوگ ہر رات اُٹھنے لگتے ہیں

گھروں میں سوتے سوتے لوگ ہر رات اُٹھنے لگتے ہیں تو آبادی میں کیا کیا انقلابات اُٹھنے لگتے ہیں نہیں اُٹھتے اگر سوئے ہوئے سلطان تو آخر جو قابو میں نہیں آتے وہ حالات اُٹھنے لگتے ہیں جواب آنے میں لگ جاتی ہیں اکثر مدتیں، لیکن جواب آتے ہی سر میں پھر سوالات اُٹھنے لگتے ہیں کوئی صدمہ نہیں اُٹھتا شروعِ عشق میں تاہم بتدریج آدمی سے سارے صدمات اُٹھنے لگتے ہیں شعورؔ اپنے لبوں پر تم خوشی سے مہر لگنے دو دبانے سے تو افکار و خیالات اُٹھنے لگتے…

Read More