فہرست ۔۔۔ ماہنامہ بیاض لاہور اکتوبر 2023

Read More

باقی احمد پوری ۔۔۔ لپکتی آگ کا دریا یہیں سے گزرے گا

غزل ابل رہا ہے جو لاوا یہیں سے گزرے گا لپکتی آگ کا دریا یہیں سے گزرے گا نظام ِ ظلمتِ  شب ختم ہونے والا ہے سنا ہے سرخ سویرا یہیں سے گزرے گا یہ سبز کھیت جنھیں ہم نے خود اجاڑ دیا ذرا سی دیر میں صحرا یہیں سے گزرے گا اسے خبر ہے کہ بزدل ہیں بستیوں والے وہ شہسوار اکیلا یہیں سے گزرے گا یہاں نہ گھر ہے نہ منزل نہ راستہ اس کا مگر وہ خاک اڑاتا یہیں سے گزرے گا قدم قدم پہ درختوں کا…

Read More

باقی احمد پوری … یہ شہر نہیں آسان میاں

یہ شہر نہیں آسان میاں مشکل ہے یہاں گزران میاں اب کیا ہوگا، کل کیا ہوگا اک دھڑکا ہے ہر آن میاں ان گلیوں میں، بازاروں میں دیکھا ہے کوئی انسان میاں بے سود یہاں ہر سود ہوا نقصان پہ ہے نقصان میاں دیوار نہیں اور در بھی نہیں پھر کاہے کو دربان میاں ناممکن سی جو لگتی ہے اس بات کا ہے امکان میاں اس خاک سے خاک ہی نکلے گی یہ خاک تو خود ہی چھان میاں یہ کیسی جنگ مسلط ہے یہ کیسا ہے گھمسان میاں میں…

Read More

باقی احمد پوری ۔۔۔ کیا جانے کہاں مَیں جا رہا ہوں

کیا جانے کہاں مَیں جا رہا ہوں بس خاک بہت اڑا رہا ہوں تو پہلے پہنچ کے کیا کرے گا کچھ دیر ٹھہر، مَیں آ رہا ہوں پہچان ہی مسئلہ ہے سارا سب نام و نشاں مِٹا رہا ہوں یہ شہر چراغ بن گیا ہے دن رات جلا بجھا رہا ہوں اب خود سے مقابلہ ہے میرا اپنے ہی گلَے کو آ رہا ہوں سب غور سے مجھ کو سن رہے ہیں مَیں بات نئی سنا رہا ہوں آنا تو نہیں کسی نے باقی ویسے ہی دیے جلا رہا ہوں…

Read More

اب سمندر سے کوئی خوف نہیں

میرا پاکستان ۔۔۔۔۔۔۔ نوید صادق اب سمندر سے کوئی خوف نہیں! ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کالم لکھوں مگر کیا لکھوں … یہی کہ … لیکن ایسا بھی کیا… کالم لکھنا کوئی ایک روزہ کرکٹ میچ تو ہے نہیں کہ تکا چل گیا تو چل گیاورنہ ہار تو کہیں نہیں گئی … کرکٹ میچ … لیکن اب تو کرکٹ سے بھی ایک چڑ سی ہوتی جاتی ہے ۔ اب آپ دریافت کریں گے کہ اس چڑ ، اس بے زاری کا اصل محرک کیا ہے … لیکن یہ شخص جس نے حکومت چلانے کو…

Read More

باقی احمد پوری ۔۔۔ ﮐﺴﯽ ﻣﯿﮟ ﺩَﻡ ﻧﮩﯿﮟ ﺍﺗﻨﺎ، ﺳﺮِ ﺷﮩﺮِ ﺳﺘﻢ ﻧِﮑﻠﮯ

کسی میں دم نہیں اتنا، سرِ شہرِ ستم نکلے ضمیروں کی صدا پر بھی، نہ تم نکلے، نہ ہم نکلے کرم کی ایک یہ صورت بھی ہو سکتی ہے، مقتل میں تری تلوار بھی چلتی رہے اور خوں بھی کم نکلے نہ مَیں واعظ، نہ مَیں زاہد، مریضِ عشق ہوں، ساقی! مجھے کیا عذر پینے میں، اگر سینے سے غم نکلے محبت میں یہ دل آزاریاں اچھی نہیں ہوتیں جسے دیکھو تری محفل سے وہ با چشمِ نم نکلے ستاروں سے پرے کوئی ہمیں آواز دیتا ہے کہیں ایسا نہ…

Read More

باقی احمد پوری ۔۔۔۔۔ محبت نے ہمارے درمیاں کچھ خواب رکھے ہیں

محبت نے ہمارے درمیاں کچھ خواب رکھے ہیں اور ان خوابوں کےاندر بھی نہاں کچھ خواب رکھے ہیں تم اپنی خواب گاہوں میں کسی دن غور سے دیکھو وہاں تعبیر بھی ہو گی جہاں کچھ خواب رکھے ہیں ستم گر آندھیوں کو کون یہ جا کر بتاتا ہے کہ گلشن میں برائے آشیاں کچھ خواب رکھے ہیں پڑائو ختم ہوتے ہی یہ منظر آنکھ نے دیکھا پسِ گرد و غبار ِکارواں کچھ خواب رکھے ہیں نہ کاغذ پر اُترتے ہیں نہ یہ رنگوں میں ڈھلتے ہیں مری آنکھوں میں ایسے…

Read More