باقی احمد پوری ۔۔۔ لپکتی آگ کا دریا یہیں سے گزرے گا

غزل ابل رہا ہے جو لاوا یہیں سے گزرے گا لپکتی آگ کا دریا یہیں سے گزرے گا نظام ِ ظلمتِ  شب ختم ہونے والا ہے سنا ہے سرخ سویرا یہیں سے گزرے گا یہ سبز کھیت جنھیں ہم نے خود اجاڑ دیا ذرا سی دیر میں صحرا یہیں سے گزرے گا اسے خبر ہے کہ بزدل ہیں بستیوں والے وہ شہسوار اکیلا یہیں سے گزرے گا یہاں نہ گھر ہے نہ منزل نہ راستہ اس کا مگر وہ خاک اڑاتا یہیں سے گزرے گا قدم قدم پہ درختوں کا…

Read More

باقی احمد پوری ۔۔۔ کیا جانے کہاں مَیں جا رہا ہوں

کیا جانے کہاں مَیں جا رہا ہوں بس خاک بہت اڑا رہا ہوں تو پہلے پہنچ کے کیا کرے گا کچھ دیر ٹھہر، مَیں آ رہا ہوں پہچان ہی مسئلہ ہے سارا سب نام و نشاں مِٹا رہا ہوں یہ شہر چراغ بن گیا ہے دن رات جلا بجھا رہا ہوں اب خود سے مقابلہ ہے میرا اپنے ہی گلَے کو آ رہا ہوں سب غور سے مجھ کو سن رہے ہیں مَیں بات نئی سنا رہا ہوں آنا تو نہیں کسی نے باقی ویسے ہی دیے جلا رہا ہوں…

Read More

باقی احمد پوری ۔۔۔ ﮐﺴﯽ ﻣﯿﮟ ﺩَﻡ ﻧﮩﯿﮟ ﺍﺗﻨﺎ، ﺳﺮِ ﺷﮩﺮِ ﺳﺘﻢ ﻧِﮑﻠﮯ

کسی میں دم نہیں اتنا، سرِ شہرِ ستم نکلے ضمیروں کی صدا پر بھی، نہ تم نکلے، نہ ہم نکلے کرم کی ایک یہ صورت بھی ہو سکتی ہے، مقتل میں تری تلوار بھی چلتی رہے اور خوں بھی کم نکلے نہ مَیں واعظ، نہ مَیں زاہد، مریضِ عشق ہوں، ساقی! مجھے کیا عذر پینے میں، اگر سینے سے غم نکلے محبت میں یہ دل آزاریاں اچھی نہیں ہوتیں جسے دیکھو تری محفل سے وہ با چشمِ نم نکلے ستاروں سے پرے کوئی ہمیں آواز دیتا ہے کہیں ایسا نہ…

Read More