باقی احمد پوری ۔۔۔ لپکتی آگ کا دریا یہیں سے گزرے گا

غزل
ابل رہا ہے جو لاوا یہیں سے گزرے گا
لپکتی آگ کا دریا یہیں سے گزرے گا
نظام ِ ظلمتِ  شب ختم ہونے والا ہے
سنا ہے سرخ سویرا یہیں سے گزرے گا
یہ سبز کھیت جنھیں ہم نے خود اجاڑ دیا
ذرا سی دیر میں صحرا یہیں سے گزرے گا
اسے خبر ہے کہ بزدل ہیں بستیوں والے
وہ شہسوار اکیلا یہیں سے گزرے گا
یہاں نہ گھر ہے نہ منزل نہ راستہ اس کا
مگر وہ خاک اڑاتا یہیں سے گزرے گا
قدم قدم پہ درختوں کا اہتمام کرو
سبا سے اڑ کے پرندہ یہیں سے گزرے گا
میں اس کی راہ میں کانٹے نہیں بچھاؤں گا
مجھے خبر ہے پیادہ یہیں سے گزرے گا
فقیر کس لیے بیٹھے ہیں اس کی راہوں میں
یہ طے نہیں وہ ہمیشہ یہیں سے گزرے گا
خلا میں گھورتا رہتا ہوں رات دن باقی
کہ جیسے میرا ستارا یہیں سے گزرے گا

Related posts

Leave a Comment