میر تقی میر … بے طاقتی نے دل کی گرفتار کر دیا

بے طاقتی نے دل کی گرفتار کر دیا
اندوہ و دردِ عشق نے بیمار کر دیا

دروازے پر کھڑا ہوں کئی دن سے یار کے
حیرت نے حسن کی مجھے دیوار کر دیا

سائے کو اس کے دیکھ کے وحشت بلا ہوئی
دیوانہ مجھ کو جیسے پریدار کر دیا

نسبت ہوئی گناہوں کی از بس مری طرف
بے جرم ان نے مجھ کو گنہگار کر دیا

دن رات اس کو ڈھونڈے ہے دل شوق نے مجھے
نایاب کس گہر کا طلبگار کر دیا

دور اس سے زار زار جو روتا رہا ہوں میں
لوگوں کو میری زاری نے بیزار کر دیا

خوبی سے بخت بد کی اسے عشق سے مرے
یاروں نے رفتہ رفتہ خبردار کر دیا

جس کے لگائی جی میں نہ اس کے ہوس رہی
یعنی کہ ایک وار ہی میں پار کر دیا

پہلو میں دل نے لوٹ کے آتش سے شوق کی
پایان کار آنکھوں کو خونبار کر دیا

کیا جانوں عشق جان سے کیا چاہتا ہے میر
خوں ریزی کا مجھے تو سزاوار کر دیا

Related posts

Leave a Comment