محمد علوی ۔۔۔ سفر میں سوچتے رہتے ہیں چھاؤں آئے کہیں

سفر میں سوچتے رہتے ہیں چھاؤں آئے کہیں

یہ دھوپ سارا سمندر ہی پی نہ جائے کہیں

میں خود کو مرتے ہوئے دیکھ کر بہت خوش ہوں

یہ ڈر بھی ہے کہ مری آنکھ کھل نہ جائے کہیں

ہوا کا شور ہے, بادل ہیں اور کچھ بھی نہیں

جہاز ٹوٹ ہی جائے زمیں دکھائے کہیں

چلا تو ہوں مگر اس بار بھی یہ دھڑکا ہے

یہ راستہ بھی مجھے پھر یہیں نہ لائے کہیں

خموش رہنا تمہارا برا نہ تھا علوی!

بھلا دیا تمہیں سب نے نہ یاد آئے کہیں

Related posts

Leave a Comment