باقی احمد پوری … یہ شہر نہیں آسان میاں

یہ شہر نہیں آسان میاں مشکل ہے یہاں گزران میاں اب کیا ہوگا، کل کیا ہوگا اک دھڑکا ہے ہر آن میاں ان گلیوں میں، بازاروں میں دیکھا ہے کوئی انسان میاں بے سود یہاں ہر سود ہوا نقصان پہ ہے نقصان میاں دیوار نہیں اور در بھی نہیں پھر کاہے کو دربان میاں ناممکن سی جو لگتی ہے اس بات کا ہے امکان میاں اس خاک سے خاک ہی نکلے گی یہ خاک تو خود ہی چھان میاں یہ کیسی جنگ مسلط ہے یہ کیسا ہے گھمسان میاں میں…

Read More

باقی احمد پوری ۔۔۔ تمہاری بات ہوتی جا رہی ہے

تمہاری بات ہوتی جا رہی ہے گزر اوقات ہوتی جا رہی ہے چلو کوئی ٹھکانہ ڈھونڈتے ہیں چلو اب رات ہوتی جا رہی ہے ابھی موسم نہیں ہے بارشوں کا مگر برسات ہوتی جا رہی ہے تمہارے وصل کی شب سوچتا ہوں بسر کیوں رات ہوتی جا رہی ہے مری ہر بات کو وہ کاٹتے ہیں غلط ہر بات ہوتی جا رہی ہے وفا تو بھول ہی بیٹھی ہے دنیا جفا دن رات ہوتی جا رہی ہے ستارے میرے آنسو چاند جگنو سہانی رات ہوتی جا رہی ہے اڑائی تھی…

Read More

شاعر علی شاعر ۔۔۔ حسین تخیلات کا شاعر ___باقیؔ احمد پوری

حسین تخیلات کا شاعر… باقی احمد پوری شاعری کو اگر جسم تصور کر لیا جائے تو اس کی روح تخیّل قرار پاتی ہے۔کسی خیال، تصور، تجربے، مشاہدے، بات، حالت اور کیفیت کا ذہن میں آنا،دماغ میں سمانا اور قلبِ شاعر پر نازل ہونا تخیّل کہلاتاہے۔باقی احمد پوری کی غزلیہ شاعری کا زیادہ تر حصہ تخیّلات پر مبنی ہے اور ان میں حسن وجمال زیادہ ہے، اس لیے میں نے انھیں حسین تخیّلات کا شاعر قراردیاہے۔شاعری وجدانی کیفیت کا نام ہے اور اِس کیفیت کے بغیر شاعری بے روح جسم کی…

Read More

باقی احمد پوری ۔۔۔ کیا جانے کہاں مَیں جا رہا ہوں

کیا جانے کہاں مَیں جا رہا ہوں بس خاک بہت اڑا رہا ہوں تو پہلے پہنچ کے کیا کرے گا کچھ دیر ٹھہر، مَیں آ رہا ہوں پہچان ہی مسئلہ ہے سارا سب نام و نشاں مِٹا رہا ہوں یہ شہر چراغ بن گیا ہے دن رات جلا بجھا رہا ہوں اب خود سے مقابلہ ہے میرا اپنے ہی گلَے کو آ رہا ہوں سب غور سے مجھ کو سن رہے ہیں مَیں بات نئی سنا رہا ہوں آنا تو نہیں کسی نے باقی ویسے ہی دیے جلا رہا ہوں…

Read More

باقی احمد پوری ۔۔۔ ﮐﺴﯽ ﻣﯿﮟ ﺩَﻡ ﻧﮩﯿﮟ ﺍﺗﻨﺎ، ﺳﺮِ ﺷﮩﺮِ ﺳﺘﻢ ﻧِﮑﻠﮯ

کسی میں دم نہیں اتنا، سرِ شہرِ ستم نکلے ضمیروں کی صدا پر بھی، نہ تم نکلے، نہ ہم نکلے کرم کی ایک یہ صورت بھی ہو سکتی ہے، مقتل میں تری تلوار بھی چلتی رہے اور خوں بھی کم نکلے نہ مَیں واعظ، نہ مَیں زاہد، مریضِ عشق ہوں، ساقی! مجھے کیا عذر پینے میں، اگر سینے سے غم نکلے محبت میں یہ دل آزاریاں اچھی نہیں ہوتیں جسے دیکھو تری محفل سے وہ با چشمِ نم نکلے ستاروں سے پرے کوئی ہمیں آواز دیتا ہے کہیں ایسا نہ…

Read More

باقی احمد پوری ۔۔۔۔۔ محبت نے ہمارے درمیاں کچھ خواب رکھے ہیں

محبت نے ہمارے درمیاں کچھ خواب رکھے ہیں اور ان خوابوں کےاندر بھی نہاں کچھ خواب رکھے ہیں تم اپنی خواب گاہوں میں کسی دن غور سے دیکھو وہاں تعبیر بھی ہو گی جہاں کچھ خواب رکھے ہیں ستم گر آندھیوں کو کون یہ جا کر بتاتا ہے کہ گلشن میں برائے آشیاں کچھ خواب رکھے ہیں پڑائو ختم ہوتے ہی یہ منظر آنکھ نے دیکھا پسِ گرد و غبار ِکارواں کچھ خواب رکھے ہیں نہ کاغذ پر اُترتے ہیں نہ یہ رنگوں میں ڈھلتے ہیں مری آنکھوں میں ایسے…

Read More

نذرانہ سلام بہ حضور شہیدانِ کربلا…. باقی احمد پوری

تہِ ریگ ِ رواں پانی ہے شاید ذرا ٹھہرو یہاں پانی ہے شاید فرات ِ وقت پر پہرے لگے ہیں لہو سے بھی گراں پانی ہے شاید کبھی تھا تخت اس کا پانیوں پر اب اس کا آسماں پانی ہے شاید خدا کا رازداں کوئی نہیں ہے خدا کا رازداں پانی ہے شاید جو سبط ِ ساقی ِ کوثر ہے دیکھو اسی کا امتحاں پانی ہے شاید یہ آتش میں گھرے خیمے، یہ آہیں سکینہ کی فغاں پانی ہے شاید ستم کی داستاں یہ بھی سناتا کہے کیا بے زباں…

Read More