شاعر علی شاعر ۔۔۔ حسین تخیلات کا شاعر ___باقیؔ احمد پوری

حسین تخیلات کا شاعر… باقی احمد پوری

شاعری کو اگر جسم تصور کر لیا جائے تو اس کی روح تخیّل قرار پاتی ہے۔کسی خیال، تصور، تجربے، مشاہدے، بات، حالت اور کیفیت کا ذہن میں آنا،دماغ میں سمانا اور قلبِ شاعر پر نازل ہونا تخیّل کہلاتاہے۔باقی احمد پوری کی غزلیہ شاعری کا زیادہ تر حصہ تخیّلات پر مبنی ہے اور ان میں حسن وجمال زیادہ ہے، اس لیے میں نے انھیں حسین تخیّلات کا شاعر قراردیاہے۔شاعری وجدانی کیفیت کا نام ہے اور اِس کیفیت کے بغیر شاعری بے روح جسم کی طرح ہے، باقی صاحب کا فنِ شاعری یہ ہے کہ وہ اپنے دل میں آنے والے خیالات،ذہن میں سمانے والے تصورات، قلبِ حزیں پر نازل ہونے والے اِلقا،آمد ہونے والے اِلہام،تلخ و شیریں تجربات،شدید جذبات، نازک احساسات اور عمیق مشاہدات کو شاعری میں متشکل کردیتے ہیں،اِن عناصر کویوں شعری قالب میں ڈھال دینا اور منظوم پیکر عطاکر دینا ہی اصل شاعری ہے اور جو شاعر اِس فن میں جس قدر طاق ہوتاہے اورمحنتِ شاقہ، باریک بینی، یک سوئی، لگن و جستجو اور مہارت سے کام لیتاہے،وہی بڑا شاعرکہلاتاہے، اسی کا کلام سینہ بہ سینہ سفر کرتاہے اور اسی کی شاعری قبولِ عام کا درجہ پاتی ہے۔ ایسی ہی شاعری آگے چل کر آفاقیت کی حامل ہوتی ہے۔ اِس میدانِ سخن کے شاہ سوار اور کارِ ادب کے ہنر مند شاعر باقی احمد پوری یہ کام انجام دینے میں بڑی حد تک کام یاب و کامران نظر آتے ہیں، اِس ضمن میں اُن کے تین شعر پیشِ خدمت ہیں:

ساری بستی میں فقط میرا ہی گھر ہے بے چراغ
تیرگی سے آپ کو میرا پتا مل جائے گا

تُو نے بھی موسموں کی پذیرائی چھوڑ دی
اب شوقِ ماہ و سال مجھے بھی نہیں رہا

مجھ سے بچھڑ کے وہ بھی پریشان تھا بہت
جس کی نظر میں کام یہ آسان تھا بہت

غیر مرئی اشیا کو مرئی بنا دینا باقی صاحب نے تخیل سے سیکھا ہے۔ کیوں کہ تخیل ہی تمام انکشافات اور ایجادات کا مرکز و محور ہے۔ شاعری کے سارے دریا اِسی سرچشمے سے پھونٹتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ شاعرِ موصوف کی شاعری میں دریا کی سی روانی اور موجوں کی سی بے کرانی محسوس ہوتی ہے جس کے سبب اُن کا کلام سنتے ہی دل میں اُتر جانے کی صلاحیت کا حامل بن جاتا ہے اور اِسی خاصیت اور خوبی نے اُن کے کلام میں روانی، سلاست اور شعریت کو بھر دیا ہے۔ اُن کے کلام میں غنائیت کا ہونا، اُن کی طبیعت کی موزونیت کے سبب ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اُن کا کلام سننے میں بھلا لگتا ہے اور کانوں میں رس گھولتا محسوس ہوتا ہے۔سامعین پر ایک سحر طاری کر دیتا ہے اور قارئین بہت دیر تک اِس کے اثر سے خود کو نکال نہیں پاتے۔
باقی احمدپوری ایک سینئر شاعر ہیں جو اپنی عمدہ شاعری کے سبب جانے اور پہچانے جاتے ہیں، نہ اُن کے پاس کوئی عہدہ ہے، نہ کوئی سرکاری سپورٹ اور نہ ہی وافر مقدارمیں مال و زرہے کہ جس کی بنیاد پر لوگ اُن کو سراہیں یا اُن سے دوستیاں نبھائیں۔ یہ حقیقت ہے کہ عہدِ حاضر کا نقاد عہدہ پرستی، مالی منفعت، حکومتی اعزازات و اسناد اور نقد انعامات کے لالچ میں دوستیاں نبھاتے ہوئے ذرّے کو آفتاب اور آفتاب کو ذرّہ بنانے پر تلے ہیں اور اس کام میں وہ اپنی پوری صلاحیت صرف کردیتے ہیں۔یہ وجہ بھی ہے کہ باقی جیسے عبقری،کہنہ مشق اور زبان وبیان میں مہارت رکھنے اور انتہائی عمدہ کلام کہنے کے باوجود سرکاری و نیم سرکاری سطح پر وہ مقام اور نام نہ مل سکا جو اُن کا جائز حق تھا، وہ آج کے شاعر نہیں ہیں، ستر کی دہائی میں جن شعرائے اُردو کا نام اُبھر کرپاکستان کے ادبی منظرنامے پر آیا اور آج تک آسمانِ سخن پروہ مہرِ منور کی طرح جگمگا رہے ہیں اُن میں باقی احمد پوری کا نام بھی شامل ہیں۔ باقی صاحب زود گوبھی ہیں اور اُنھیں شعر میں خیال کو سجا کر پیش کرنے میں ملکہ حاصل بھی ہے۔ اِس سلسلے میں اُن کے چند شعر ملاحظہ ہوں:

وحشت میں تار تار لبادہ نہیں کیا
اتنا بھی ہم نے عشق زیادہ نہیں کیا

دشت و دریا کے یہ اُس پار کہاں تک جاتی
گھر کی دیوار تھی، دیوار کہاں تک جاتی

وہ ستم کر کے پشیماں نہیں ہونے والا
سخت کافر ہے مسلماں نہیں ہونے والا

یہ بھی حقیقت ہے کہ باقی احمد پوری وسیع المطالعہ شاعر ہیں۔ اُن کی نظر سے تمام سکّہ بند اور کہنہ مشق شعرائے اُردو کا کلام گزرا ہے بلکہ وہ اپنے ہم عصر شعرأ کے ساتھ ساتھ اپنے بعد آنے والے شعرأا ور شاعرات کو بھی پڑھتے رہتے ہیں۔ اِس مطالعے کی عادت، سخن فہمی اور مشقِ سخن کے سبب وہ کلاسیک کی روح تک سے واقف ہو گئے، اور اُردو ادبِ عالیہ اُن کے مزاجِ شاعرانہ میں رچ بس گیا ہے۔ اُن کا خاندانی نام سید مقبول حُسین بخاری اور قلمی نام باقی احمد پوری ہے، وہ باقیؔ تخلص کرتے ہیں اور اکیس مارچ 1950ء کو احمد پور لمہ (ضلع رحیم یار خان) میں پیدا ہوئے، اُنھوں نے مکینیکل انجینئرنگ میں  ڈپلومہ آف ایسوسی ایٹ انجینئر  انجینئر حاصل کیا اور بعد ازاں ایم اے اُردو پنجاب یونی ورسٹی، لاہور سے کیا۔ اُن کے اب تک مندرجہ ذیل گیارہ شعری مجموعے نہ صرف زیورِ طباعت سے آراستہ ہو کر منصہ شہود پر آ چکے ہیں بلکہ قارئینِ شعر و سخن، ناقدینِ فن و ہنر اور مشاہیرِ اُردو ادب سے داد و تحسین بھی وصول کر چکے ہیں۔
فہرست گیارہ مجموعہ ہائے کلام:

۱۔ باقیات

۲۔ نقشِ باقی

۳۔ صدر رشکِ غزالاں

۴۔ اب شام نہیں ڈھلتی

۵۔ محبت ہم سفر میری

۶۔ غزل تم ہو

۷۔ اُداسی کم نہیں ہوتی

۸۔ اگر آنکھیں چھلک جائیں

۹۔ روانی

۱۰۔ ہمارا کیا ہے

۱۱۔ والہانہ

جس شاعر کی ملکیت میں اِس قدر شعری اثاثہ اور سرمایۂ سخن ہو، اُسے بھلا زبان و بیان کی نازکیوں کا شعور کیوں کر نہ ہوگا۔ باقی احمد پوری کو ہم جدید تو نہیں نیم جدید اُسلوب و فکر کے شعرأ میں شمار کرتے ہیں۔ وہ نیم جدید اُسلوب و فکر کے ایسے ثقہ شاعر ہیں جن کی شاعرانہ خوبیوں کی روشنی میں نہ جانے کتنے تازہ کار اور نو آموز شاعر اپنی شاعری کے چمن نکھار اور اُن کی سلجھی ہوئی اور مہذب و مؤدب صحبت میں اپنی شاعرانہ اور ادبی شخصیت کو سنوار رہے ہیں۔ وہ صاحبِ اُسلوب شاعر ہیں، ادب میں اُن کا بڑا مقام ہے کیوں کہ اُن کے کلام میں فنی و فکری اور اُسلوبیاتی انفرادیت موجود ہے۔ اُن کے سرمایۂ سخن میں رموزِ حیات بھی بیان ہوئے ہیں اور اسرارِ کائنات بھی سموئے گئے ہیں۔
اُن کا ہر شعر اثر انگیزی کا شفّاف آئینہ ہے اور شعری جمالیات سے مزین ہے۔ وہ باقاعدہ ترقی پسند شاعر تو نہیں ہیں، مگر اُن کے یہاں ترقی پسندانہ شاعرانہ شعور بھرپور توانائی کے ساتھ موجود ہے۔ اُنھوں نے کسی سے کسبِ فیض نہیں کیا ہے بلکہ وہ اپنے مزاجِ شاعرانہ کے مطابق اپنے اُسلوبِ شاعری کی راہ پر گامزن ہیں اور اُن کا یہ سفر تسلسل سے جاری ہے۔ اب تک اُن کے اعصاب تھکے اور نہ اُن کے قدم کہیں رُکے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ اُن کے گیارہ شعری مجموعوں پر مشتمل’’کلیاتِ باقی احمد پوری‘‘ تیاری کے مراحل سے گزر رہا ہے۔ اِس مواد سے جہاں دامنِ اُردو ادب مالامال ہو گیا وہاں اُردو ادب کے وقیع سرمائے میں اضافہ بھی ہوگا اور وہ تاریخِ اُردو ادب کا حصہ بھی بنے گا۔
اپنے دعووں کے دلائل میں شاعرِموصوف کے چند شعر پیش کرتا ہوں:

یہ عشق ایک دشتِ پُر اسرار ہے میاں
اِس دشت میں مکان بناتا ہے کوئی کوئی

ذہن تھک جاتا ہے اِک یاد کو لکھتے لکھتے
چھوڑ کے لوح و قلم گھر سے نکل جاتے ہیں

اُس خوش بدن کی ایک ہی خواہش ہے رات دن
سارے جہاں میں اُس کی دہائی پڑی رہے

باقی احمد پوری فکر و خیال، زبان و بیان، اُسلوبِ تازہ اور شاعرانہ ہنرمندی کی صفات سے آراستہ ہیں۔ وہ شاعری کی معتبر اور ثقہ آوازوں میں شمار ہوتے ہیں۔
باقی احمد پوری قدامت پسند نہیں ہیں اورنہ وہ دقیانوسی سوچ کے مالک ہے بلکہ وہ دنیا کے موسموں کے ساتھ چلنے کی کوشش میں مصروف رہتے ہیں۔ عہدِ حاضر کے شعری تقاضوں کو پورا کرنے کی سعیِ بلیغ کرتے رہتے ہیں اِس لیے وہ کسی جدید، نام ور، سکہ بند اور کہنہ مشق شاعر سے کم نہیں ہیں۔ شاعرانہ حیثیت میں اُن کے ہم پلہ ہیں۔ وہ شدید جذبات، تلخ و شیریں تجربات اور عمیق مشاہدات کو منظوم کرنے پر مکمل دست رس رکھتے ہیں اور اپنے شعری آہنگ میں انفرادیت کے حامل ہیں۔ اُن کا مزاجِ شاعرانہ تلاش وجستجو سے معمور ہے اِسی لیے اُن کا مزاجِ سخن اپنے معاصرین شعرأ سے بڑی حد تک الگ نظر آتا ہے۔ ایک اچھے، کام یاب اور بڑے شاعر کے لیے جن شاعرانہ اوصاف کا ہونا لازمی ہے، وہ اُن میں بہ درجہ اتم ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے ہم عصر شعرأ میں منفردوممتاز نظر آتے ہیں۔
ویسے تو باقی احمد پوری کی شاعری علامت، تجرید اور ابہام و اہمال سے پاک ہے اور اُن کے اشعار کے تمام آئینے صاف و شفاف ہیں جن میں ہر عکس واضح نظر آتا ہے، مگر اُن کے کلام میں ایک علامت نظر آتی ہے جو ’’پرندہ‘‘ ہے۔ وہ پرندوں سے پیار بھی کرتے ہیں اور اُن کی طرح آزاد رہ کر زندگی گزارنا بھی چاہتے ہیں، مگر اُن کی بے بسی پر آنسوبھی بہاتے اور دکھ کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں کہ لوگ پرندوں کو قید کر لیتے ہیں، اُنھیں بال و پر سے محروم کر دیتے ہیں، اُن کی بھوک اورپیاس کا خیال نہیں رکھتے، دیگر جان دار اُنھیں بہ آسانی اپنا شکار بنا لیتے ہیں۔
وہ خود سے کہتے ہیں کہ تم کیسے شخص ہو کہ انسان ہو کر اپنے گھر کا راستہ بھول جاتے ہو جب کہ پرندے جانور ہو کر اپنا آشیانہ یاد رکھتے ہیں۔ وہ اُن پرندوں کی بات بھی کرتے ہیں جو خود بہ خود مکینوں سے مانوس ہو کر اُن کے مکانوں کی منڈیروں پر آ بیٹھتے ہیں۔ ایک جگہ تو شاعرِ موصوف نے خود کو پرندہ تصور کر کے شکوہ کیا ہے کہ ہم خود اُڑے نہیں ہیں، ہمیں اُڑایا گیا ہے، ہمیں ستایا گیا ہے۔وہ اپنے محبوب کو صیاد مان کر بے کسی کا اظہارکرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہم تمھارے جال میں آ گئے ہیں، اب بے بس و مجبور ہیں، تمھارے رحم و کرم پر ہیں، اب تم ہمیں پنجرے میں قید کرو یا ہمارے پر کاٹو،جو سلوک چاہو روا رکھو۔ وہ کہتے ہیں کہ ہوا چلتی ہے تو بچے کھیل سمجھ کر کاغذ کے بنائے ہوئے پرندوں کو اُڑاتے ہیں۔ وہ پرندوں کو شاخوں پر بیٹھا دیکھ کر کہتے ہیں کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے یہ پرندے بھی شجر کے ساتھ اُگائے گئے ہوں۔
شاعرِ موصوف کے تخیل کی بلندیپروازی ملاحظہ ہو: وہ کہتے ہیں کہ فلک پر لوگ جن کو ستارے خیال کر رہے ہیں وہ تو چاندنی میں نہاتے ہوئے پرندے ہیں، اِس لیے ستاروں کی طرح جگ مگ جگ مگ کرتے نظر آ رہے ہیں۔ پھر افسوس کے ساتھ کہتے ہیں کہ ہم جیسے پرندوں کے نصیب میں توبلندیاں لکھی ہوتی ہیں،اوراگر ہم جیسے پرندے زمین پر ہیں تو ہمیں آسمان سے گرایا گیا ہے۔ پھر پرندوں کی وفاداری کا ذکر کرتے ہیں کہتے ہیں کہ ہمیں فکر نہیں ہے کہ ہمارے سدھائے پرندے ہمیشہ ہمارے پاس ہی لوٹ کر آئیں گے۔ وہ کہتے ہیں کہ جو درخت تناور ہوتے ہیں وہ کبھی بھی پرندوں کو دکھ نہیں دیتے بلکہ اُنھیں ثمر، سایہ، پناہ اور آشیاں بخش دیتے ہیں۔
ایک جگہ تو باقی صاحب پرندوں سے خطاب کرتے ہوئے کہتے ہیں:
 میں نے محبوب کے نام خط لکھ رکھا ہے، مگر تم زبانی پیغام بھی لے جانا۔
 مجھے محبوب کی یاد مصروف رکھتی ہیں، اے پرندو، میرے کام ادھورے رہ جاتے ہیں۔
 پرندو، آج میرے ساتھ رہنا کیوں کہ بچھڑنے کے بعد محبوب سے ملنے کی پہلی شا م ہے۔
 اے پرندو، اُجلی دھوپ میرے گھر کا رستہ بھول گئی ہے، دن نکلتے ہی شام آجاتی ہے۔
 اے پرندو، سب کو محبت کا انجام معلوم ہے پھر بھی یہ جذبہ دل میں سر اُٹھا لیتا ہے۔
 اے پرندو، میرا ساتھ دو اُس ظالم محبوب کو میرے لیے رام کرو۔
یہ تشبیہات، یہ علامات اور یہ استعارات قابلِ ذکر ہی نہیں بلکہ قابلِ صد ستائش اور قابلِ داد بھی ہیں۔ میں باقی صاحب کی ایک غزل جس کی ردیف’’پرندے ہیں‘‘ ہیں پیش کرنے پر خود کو مجبور پا رہا ہوں۔ اِس غزل کو اُن کی نمایندہ غزل بھی کہیں تو بے جا نہ ہوگا، ملاحظہ ہو:

اُڑے نہیں ہیں، اُڑائے ہوئے پرندے ہیں
ہمیں نہ چھیڑ ستائے ہوئے پرندے ہیں

قفس میں قید کرو یا ہمارے پر کاٹو
تمھارے جال میں آئے ہوئے پرندے ہیں

ہَوا چلے گی تو بچے اُڑائیں گے اِن کو
یہ کاغذوں سے بنائے ہوئے پرندے ہیں

جمے ہوئے ہیں یہ شاخوں پہ اِس طرح جیسے
شجر کے ساتھ اُگائے ہوئے پرندے ہیں

فلک پہ جن کو ستارے سمجھ رہے ہیں لوگ
وہ چاندنی میں نہائے ہوئے پرندے ہیں

بلندیاں ہیں ہمارے مزاج میں شامل
بلندیوں سے گرائے ہوئے پرندے ہیں

ہمارے پاس ہی آئیں گے لوٹ کر باقی
ہمارے جتنے سدھائے ہوئے پرندے ہیں

کچھ نقاد چند مخصوص شعرأ کو سہلِ ممتنع کا شاعرقرار دیتے ہیں حالاں کہ اُن کی تمام شاعری سہلِ ممتنع کے زمرے میں نہیں آتی،مگر پھربھی وہ اپنا سارا زورِ تنقید اپنے ممدوح شعرأ کو مذکورہ صنعتِ شاعری کا شاعرقراردینے میں صرف کر تے رہتے ہیں پھر بھی لوگ اُن کے ممدوح شعرأ کو سہلِ ممتنع کا شاعر نہیں مانتے۔میں باقی صاحب کو سہلِ ممتنع کا شاعرتوقرار نہیں دے رہا مگر اُن کے کلام سے اچھا خاصا سرمایہ ایسا پیش کر سکتا ہوں جو سہلِ ممتنع کی عمدہ مثال میں پیش کیا جا سکتاہے۔نمونے کے طورپر چند اشعار پیشِ خدمت ہیں:

پتھروں سے جڑے ہوئے شیشے
پتھروں سے بھی سخت ہوتے ہیں

میں کسی بحث میں نہیں پڑتا
جائو بابا مجھے معاف کرو

وہ ایسے ڈھونڈنے نکلے ہیں باقیؔ
محبت جیسے رستے میں پڑی ہے

یاد کرتے نہیں ہیں وہ ہم کو
بھول سکتے نہیں ہیں ہم صاحب

شہر جنگل سے کم نہیں لگتا
آدمی جانور بنے ہوئے ہیں

وہ کہاں سب کے ہاتھ آتا ہے
زور تو اپنا سب لگاتے ہیں

جس طرح چمن میں بہت سے پھول کھلتے ہیں اور سب اپنی اپنی بہار دِکھا رہے ہوتے ہیں، اُن تمام پھولوں کی بناوٹ اورساخت الگ ہوتی ہے، وہ رنگ و نکہت اور نور کی بنا پر مختلف ہوتے ہیں، اُن کی خوش بوئیں مختلف ہوتی ہیں، اُن کے اثرات مختلف ہوتے ہیں، اِسی طرح چمنِ شاعری اور گلزارِ سخن میں بھی مختلف النوع اشعار کے پھول کھلتے ہیں جو دنیائے اُردو ادب کو اپنی بھینی بھینی خوش بو سے مہکائے رکھتے ہیں، اُن اشعار کی بناوٹ، ساخت، اثر آفرینی، مضمون آفرینی، مختلف ہوتی ہے، اُن میں خیال کی ندرت، تخیل کی بلند پروازی، سوچ کی وسعت اور فکر کی گہرائی مختلف ہوتی ہے، جس طرح ہر پھول کی پتیاں، اُس کی تراش خراش، پیراہنِ رنگ و بو دیدہ زیب اور اثر آفرین ہوتا ہے، اِسی طرح ہر شعر کی تاثیر جداجدا ہوتی ہے، مگر چمن کے تمام پھولوں میں گلاب کو جو عزت و مقام اور شہرت حاصل ہے وہ دوسرے کسی پھول کو نہیں۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ باقی احمد پوری کے اشعار چمنِ شاعری اور گلزارِ سخن کے وہ پھول ہیں جو تمام کے تمام گلاب کی مماثلت رکھتے ہیں۔ اُن کی خوش بو اور پھولوں سے منفرد ہوتی ہے اور رنگ بھی دیگر پھولوں سے الگ نظر آتاہے، اُن کی خوش نمائی اور بناوٹ و ساخت بھی تمام پھولوں سے عمدہ اور دل کش ہوتی ہے۔ میں یہ کہنے میں حق بہ جانب ہوں کہ باقی صاحب کی شاعری ہزاروں شعرائے اُردو سے بہتر اور اچھی ہے، اُن کے سیکڑوںہم عصراُن سے پیچھے صرف اِس لیے رہ گئے ہیں کہ وہ اپنے کارِ ادب سے سنجیدہ نہ رہ سکے۔
مندرجہ ذیل اشعار سے اندازہ لگایا جا سکتاہے کہ اُن اور اُن کے ہم عصر شعرأ کے کلام میں زمین و آسمان کا فرق ہے:

خاموش چاہتوں کی مہک اُس طرف بھی ہے
جو میرے دل میں ہے وہ کسک اُس طرف بھی ہے

مرے بازارِ حسرت میں یہی اِک چیز ہے باقیؔ
یہاں کچھ خواب رکھے ہیں، وہاں کچھ خواب رکھے ہیں

زندگی کے کارواں پر کچھ اثر پڑتا نہیں
اِک مسافر کھو گیا تو دوسرا مل جائے گا

باقی صاحب نے اس دشتِ پُرخار اور راہِ دشوار گزار کا سفر بغیر تھکے اور بغیر رُکے کیا ہے۔ وہ آج بھی اِس دشت کی سیّاحی میں مصروفِ عمل ہیں۔ کیسا بھی کٹھن موسم ہو، ابروباد و باراں ہو، پیروں میں آبلے پڑ چکے ہوں یا مسافت کی تھکن آڑے آ رہی ہو، اپنوں کے ناروا رویے، دوستوں کی بدسلوکیاں اور قسمت کی بدنصیبیوں کو جھیل کر وہ اپنی منزلِ مقصود کی طرف رواں دواں اور زندگی بسرکر رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج نہ صرف پاکستان بلکہ ہندوستان اور دنیا بھر میں اُردو کی نئی بستیوں کے مکین اُن کی شاعری کے گرویدہ ہیں۔ جس طرح خوش بو کو بکھرنے، روشنی کو پھیلنے اور سورج کو نکلنے سے کوئی نہیں روک سکتا،اِسی طرح باقی احمد پوری کے جیسی اچھی شاعری، عمدہ خیال، اور تخیل کی بلند پروازی کے راستے میں کوئی حائل نہیں ہوسکتا۔ وہ مسلسل سفر اختیار کیے ہوئے ہیں اور منزل بہ منزل طے کرتے ہوئے منزلِ مقصود کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ اِس راستے اور سفر میں نہ اُنھیں راہبر کی رہبری سے غرض ہے اور نہ اُنھیں اہلِ کارواں کے ساتھ اور جرس کی آواز کا انتظار ہے۔وہ اپنا سفر خود طے کیے جا رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ منزلِ معراجِ فن پر پہنچ چکے ہیں جہاں سے اُنھیں اپنی محنتِ شاقہ، باریک بینی، یک سوئی اور لگن و جستجو کا صلہ ملتا نظر آ رہا ہے۔ میں اِس باہمت اور حسین تخلیقات کے شاعر کو دلی مبارک باد دیتا ہوں اوراُن کی ہمتِ مردانہ کی داد دیتے ہوئے اُن کی عظمتِ شاعرانہ کو سلام پیش کرتا ہوں۔ چند اشعار پیش کر کے اجازت چاہوں گا:

عمر بھر کون رہے ابرِ کرم کا محتاج
داغِ دل اشکوں سے دھو لیں گے ہمارا کیاہے

بے خواب سرخ آنکھوں نے سب کچھ بتا دیا
کل رات دل میں درد کا طوفان تھا بہت

باقیؔ میں اپنے فن سے بڑا پُر خلوص ہوں
اس واسطے زوال مجھے بھی نہیں رہا
۰۰۰

Related posts

Leave a Comment