فہرست ۔۔۔ ماہنامہ بیاض لاہور اکتوبر 2023

Read More

عمران اعوان ۔۔۔ آج پھر ڈستی رہی مجھ کو مری تنہائی

آج پھر ڈستی رہی مجھ کو مری تنہائی آج بھی تم سے مری بات نہیں ہو پائی آتے جاتے ہوئے ہر قافلے سے پوچھ لیا آج بھی لوٹ کے آیا نہ مرا ہرجائی میں نے یہ سوچ کے پھر دل کو تسلی دے لیکیا کبھی ہاتھ میں آتی ہے کوئی پرچھائی اتنی مشکل تو چڑھائی میں نہیں آئی تھی جتنی مشکل میں مجھے ڈال گئی اترائی میں نے چاہا تھا کہ جی بھر کے تجھے دیکھوں گاپھر جھلک دیکھتے ہی آنکھ مری بھر آئی

Read More

عمران اعوان ۔۔۔ یہی تو سوچ کے ہلکان تھا میں سارا دن

یہی تو سوچ کے ہلکان تھا میں سارا دن کہ میرے بعد بھی کٹتا رہا تمہارا دن مجھے پتہ ہے ترا فلسفہ ضرورت ہے اسی لیے تو مرے بعد بھی گزارا دن ہم آج شام سے پہلے نہ لوٹ پائیں گے کہاں یہ لمبا سفر اور ، کہاں ہمارا دن ہم اہل ہجر ہیں راتوں کو جاگنے والے ہمارے واسطے تو نے نہیں اتارا دن ہمیں بھی وصل کے لمحے عزیز ہیں، جاناں! ہمیں بھی زندگی سے دے کوئی ادھارا دن حسین لگنے لگی ہے تمام دنیا مجھے تمہاری آنکھ…

Read More

عمران اعوان

سانس لینا محال ٹھہرا ہے تیری محفل میں لوگ اتنے ہیں

Read More

عمران اعوان ۔۔۔ ہنستے چہرے پہ بھی قرار نہیں

ہنستے چہرے پہ بھی قرار نہیں اسطرح زندگی گزار نہیں تو نے ہر بار جھوٹ بولا ہے تیری باتوں کا اعتبار نہیں تو یہاں وقت پاس کرتا ہے مجھ کو معلوم ہے یہ پیار نہیں تیرا ہر سال اک کہانی ہے میرا لمحوں میں بھی شمار نہیں میں پسِ بام دیکھ سکتا ہوں صرف آنکھوں پہ انحصار نہیں تیری آنکھوں میں ہو بھی سکتا ہے میرے چہرے پہ تو غبار نہیں تو مجھے کب کا بھول بیٹھا ہے اور مجھے تیرا انتظار نہیں زندگی سے فرار ممکن ہے ہجر کی…

Read More

عمران اعوان … یہی تو سوچ کے ہلکان تھا میں سارا دن

یہی تو سوچ کے ہلکان تھا  میں سارا دن کہ میرے بعد بھی کٹتا رہا تمہارا دن مجھے پتہ ہے ترا فلسفہ  ضرورت ہے اسی لیے تو مرے بعد بھی گزارا دن ہم آج شام سے پہلے نہ لوٹ پائیں گے کہاں یہ لمبا سفر اور  کہاں ہمارا دن ہم اہل ہجر ہیں راتوں کو جاگنے والے ہمارے واسطے تو نے نہیں اتارا دن ہمیں بھی وصل کے لمحے عزیز ہیں جاناں! ہمیں بھی زندگی سے دے کوئی ادھارا دن حسین لگنے لگی ہے تمام دنیا مجھے تمہاری آنکھ نے…

Read More

عمران اعوان… یہ جو آنکھوں پہ بند تالے ہیں

یہ جو آنکھوں پہ بند تالے ہیں میں نے کچھ خواب بیچ ڈالے ہیں میں تجھے یاد بھی نہیں کرتا نہ ہی میسج ترے سنبھالے ہیں آج کچھ بے قرار لگتے ہیں سانپ جو آستیں میں پالے ہیں باغِ دل اس طرح سے اجڑا ہے نہ ہی بلبل ہے نہ ہی نالے ہیں کتنی زرخیز ہو گئی مٹی جب سے کچھ درد اس میں ڈالے ہیں اس نے پھولوں سے چن لئے کانٹے زندگی سے نہیں نکالے ہیں جو بتائے تھے بانٹنے کے لئے اس نے وہ دکھ مرے اچھالے…

Read More