عمران اعوان ۔۔۔ ایک طوفان آنے والا ہے

ایک طوفان آنے والا ہے وقت الٹا گھمانے والا ہے یہ جو صحرا دکھائی دیتا ہے اک سمندر پرانے والا ہے پھر سے بدلیں گے زاویے سارے اتنا بھونچال آنے والا ہے چھوڑ دو کشتیاں سمندر میں پانی بستی میں جانے والا ہے یہ جو پنچھی بکھر گئے سارے آسماں کچھ گرانے والا ہے مجھ کو معلوم ہے پس پردا کون فتویٰ لگانے والا ہے اتنا خاموش وہ نہیں رہتا کچھ تو سازش رچانے والا ہے جس کو آنکھوں کا نور سمجھا تھا وہ مرا گھر جلانے والا ہے

Read More

عمران اعوان ۔۔۔ ہمارا عشق بھی، سمجھی کہ بس خیالی ہے

ہمارا عشق بھی، سمجھی کہ بس خیالی ہے اسی لئے تو میں کہتا ہوں تُو نرالی ہے کبھی تو آنکھ ملا کر بھی بات کر مجھ سے یہ تو نے بیچ میں دیوار کیوں اٹھا لی ہے تو اپنے آپ سے باہر کبھی نہیں نکلی وگرنہ ایک زمانہ ترا سوالی ہے یہ زندگی بھی ترے بعد اک سکوت میں ہے جہاں پہ چھوڑ گئے تھے وہاں نبھا لی ہے پڑی ہوئی تھی جو رستے میں تیرے پاؤں کی دھول وہی سمیٹ کے دنیا نئی بنا لی ہے

Read More

عمران اعوان ۔۔۔ اپنے رستے کو موڑ سکتا ہے

اپنے رستے کو موڑ سکتا ہے جس نے جانا ہے چھوڑ سکتا ہے باغ سے پھول توڑنے والا چاہے تو دل بھی توڑ سکتا ہے زندگی بھاگتی ہی رہتی ہے آدمی کتنا دوڑ سکتا ہے آج وہ رو رہا ہے اشکوں سے جو تری آنکھ پھوڑ سکتا ہے کچھ خراشیں تو پھر بھی رہتی ہیں آئنہ کون جوڑ سکتا ہے

Read More

عمران اعوان ۔۔۔ اب مجھے بھول، کوئی بات نہ کر، جانے دے

اب مجھے بھول، کوئی بات نہ کر، جانے دے بیتے لمحوں کے مناظر کو بکھر جانے دے رات گہری ہے یہاں تو بھی ہے، سناٹا بھی ہم چراغوں کو اندھیروں میں اتر جانے دے میں نے کچھ کام ضروری ابھی نمٹانے ہیں تیرا احسان، مرے یار! اگر جانے دے میں اگر لوٹ بھی آیا تو مجھے مت ملنا اس خرابی کو، مری جان! سدھرجانے دے تیز بارش ہے کہ سڑکوں پہ بھی پانی ہے بہت آج کی رات مجھے پاس ٹھہر جانے دے تونے آواز لگائی تو بھٹک جائے گا…

Read More

عمران اعوان

سانس لینا محال ٹھہرا ہے تیری محفل میں لوگ اتنے ہیں

Read More

عمران اعوان ۔۔۔ ہنستے چہرے پہ بھی قرار نہیں

ہنستے چہرے پہ بھی قرار نہیں اسطرح زندگی گزار نہیں تو نے ہر بار جھوٹ بولا ہے تیری باتوں کا اعتبار نہیں تو یہاں وقت پاس کرتا ہے مجھ کو معلوم ہے یہ پیار نہیں تیرا ہر سال اک کہانی ہے میرا لمحوں میں بھی شمار نہیں میں پسِ بام دیکھ سکتا ہوں صرف آنکھوں پہ انحصار نہیں تیری آنکھوں میں ہو بھی سکتا ہے میرے چہرے پہ تو غبار نہیں تو مجھے کب کا بھول بیٹھا ہے اور مجھے تیرا انتظار نہیں زندگی سے فرار ممکن ہے ہجر کی…

Read More

عمران اعوان … یہی تو سوچ کے ہلکان تھا میں سارا دن

یہی تو سوچ کے ہلکان تھا  میں سارا دن کہ میرے بعد بھی کٹتا رہا تمہارا دن مجھے پتہ ہے ترا فلسفہ  ضرورت ہے اسی لیے تو مرے بعد بھی گزارا دن ہم آج شام سے پہلے نہ لوٹ پائیں گے کہاں یہ لمبا سفر اور  کہاں ہمارا دن ہم اہل ہجر ہیں راتوں کو جاگنے والے ہمارے واسطے تو نے نہیں اتارا دن ہمیں بھی وصل کے لمحے عزیز ہیں جاناں! ہمیں بھی زندگی سے دے کوئی ادھارا دن حسین لگنے لگی ہے تمام دنیا مجھے تمہاری آنکھ نے…

Read More