عمران اعوان ۔۔۔ اب مجھے بھول، کوئی بات نہ کر، جانے دے

اب مجھے بھول، کوئی بات نہ کر، جانے دے
بیتے لمحوں کے مناظر کو بکھر جانے دے

رات گہری ہے یہاں تو بھی ہے، سناٹا بھی
ہم چراغوں کو اندھیروں میں اتر جانے دے

میں نے کچھ کام ضروری ابھی نمٹانے ہیں
تیرا احسان، مرے یار! اگر جانے دے

میں اگر لوٹ بھی آیا تو مجھے مت ملنا
اس خرابی کو، مری جان! سدھرجانے دے

تیز بارش ہے کہ سڑکوں پہ بھی پانی ہے بہت
آج کی رات مجھے پاس ٹھہر جانے دے

تونے آواز لگائی تو بھٹک جائے گا
اس مسافر کو خموشی سے گزر جانے دے

Related posts

Leave a Comment