میرا جی ۔۔۔ پاس کی دوری

Read More

اب سمندر سے کوئی خوف نہیں

میرا پاکستان ۔۔۔۔۔۔۔ نوید صادق اب سمندر سے کوئی خوف نہیں! ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کالم لکھوں مگر کیا لکھوں … یہی کہ … لیکن ایسا بھی کیا… کالم لکھنا کوئی ایک روزہ کرکٹ میچ تو ہے نہیں کہ تکا چل گیا تو چل گیاورنہ ہار تو کہیں نہیں گئی … کرکٹ میچ … لیکن اب تو کرکٹ سے بھی ایک چڑ سی ہوتی جاتی ہے ۔ اب آپ دریافت کریں گے کہ اس چڑ ، اس بے زاری کا اصل محرک کیا ہے … لیکن یہ شخص جس نے حکومت چلانے کو…

Read More

بدل گئی ہے بہت آس پاس کی صورت (غلام حسین ساجد) ۔۔۔۔ نوید صادق

بدل گئی ہے بہت آس پاس کی صورت (دیباچہ: مجموعہ کلام "اعادہ”) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ستر کی دہائی اُردو غزل میں ایک انقلاب کی دہائی ہے۔ ثروت حسین، محمد اظہارالحق اور غلام حسین ساجد اِس انقلاب کے بڑوں میں سے نمایاں نام ہیں۔ثروت حسین نے ایک قلیل عرصۂ شعر میں اپنے انمول اور انمٹ نقوش ثبت کرنے کے بعد موت کو گلے لگا لیا، محمد اظہارالحق کچھ عرصہ بعد تقریباً خاموش ہو گئے۔ اب ان کی کبھی کبھار کوئی غزل نظر پڑتی بھی ہے تو یہی احساس ہوتا ہے کہ وہ ستّر…

Read More

اُس دن ۔۔۔۔۔۔ منیر نیازی

اُس دن ۔۔۔۔۔۔۔ میری بات کے جواب میں اُس نے بھی بات کی اُس کے بات کرنے کے انداز میں دیر کے گرے ہوئے لوگوں، ڈرا دیے گئے شہروں کا عجز تھا جو پختہ ہو گیا تھا اُس دن مَیں دیر تک اُداس رہا کیا حسن تھا کہ غرورِ حسن بھول گیا اتنے برسوں میں اُس پر کیا بیتی مَیں نے اُس سے نہیں پوچھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مجموعہ کلام: پہلی بات ہی آخری تھی

Read More

قاضی حبیب الرحمن ۔۔۔۔۔۔ تلاشِ ذات میں اپنا نشاں نہیں ملتا

تلاشِ ذات میں اپنا نشاں نہیں ملتا یقین کیسا؟ یہاں تو گماں نہیں ملتا سفر سے لوٹ کے آنا بھی اک قیامت ہے خود اپنے شہر میں اپنا مکاں نہیں ملتا بہت دنوں سے بساطِ خیال ویراں ہے بہت دنوں سے وہ آشوبِ جاں نہیں ملتا جہاں قیام ہے اُس کا ، عجیب شخص ہے وہ یہ واقعہ ہے کہ اکثر وہاں نہیں ملتا گواہ سارے ثقہ ہیں ، مگر تماشا ہے کسی کے ساتھ کسی کا بیاں نہیں ملتا شعورِ جاں ، عوضِ جاں ، بسا غنیمت ہے کہ…

Read More

محسن بھوپالی

اب بھی کہتا ہوں اپنے دل کی بات کس قدر وقت ناشناس ہوں مَیں

Read More

عبد الحمید عدم ….. ذہن گلزار ہو گیا ہوگا

ذہن گلزار ہو گیا ہوگا باغباں یار ہو گیا ہوگا بات، سرکار! بن گئی ہوگی کام، سرکار! ہو گیا ہوگا پھول اُس زلف سے جدا ہو کر سخت بیمار ہو گیا ہوگا قافلہ اب نظر نہیں آتا تیز رفتار ہو گیا ہوگا لوٹتا کب تھا قیس گھبرا کر شہر بیدار ہو گیا ہو گا ایک ارماں تو تھا عدم دل میں سوکھ کر خار ہو گیا ہوگا …………….. مجموعہ کلام: بطِ مے مطبوعہ: اپریل ۱۹۵۷ء کتاب گھر، امرتسر

Read More

اثر لکھنوی ۔۔۔۔۔۔ وہ آنکھ، وہ تیور، وہ مدارات نہیں ہے

وہ آنکھ، وہ تیور، وہ مدارات نہیں ہے کس طرح کوئی مان لے، کچھ بات نہیں ہے ملنے کا یہ انداز نیا تم نے نکالا گویا کبھی پہلے کی ملاقات نہیں ہے جو آپ کہیں اس میں یہ پہلو ہے، وہ پہلو اور ہم جو کہیں بات میں وہ بات نہیں ہے کہنے کو یہاں رندِ خرابات بہت ہیں دل گرمیِ رندانِ خرابات نہیں ہے آ جائے گا سو بار، اثر! منہ کو کلیجا باتوں میں جو کٹ جائے یہ وہ رات نہیں ہے

Read More