عبدالحمید عدم

مفلسوں کو امیر کہتے ہیں آبِ سادہ کو شیر کہتے ہیں اے خدا! تیرے باخرد بندے بزدلی کو ضمیر کہتے ہیں

Read More

ماجد یزدانی ۔۔۔ عبدالحمید عدم کی شخصیت و شاعری

عبدالحمید عدم کی شخصیت و شاعری ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مَیں مے کدے کی راہ سے ہوکر نکل گیا ورنہ سفر حیات کا کافی طویل تھا مرزا ادیب لکھتے ہیں: "عبدالحمید عدم اسلامیہ ہائی سکول بھاٹی گیٹ میں اْن کے ہم جماعت تھے۔ عدم انتہائی ذہین طالب علم تھے۔ اسلامیات کے حوالے سے ان کا علم بڑا وسیع تھا۔ مذہب کے معاملات میں نہایت محتاط تھے، اْن کی یہ جہت اْن کے کلام کی گہرائی میں نظر آتی ہے۔عدم نے ابتدا میں تخلص "اختر” رکھا، چھوٹی اور لمبی بحر میں شاعری کی، اْن…

Read More

افضل خان کی غزل ۔۔۔ نوید صادق

افضل خان کی غزل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عہدِ جدید نے جہاں بہت سی آسانیاں پیدا کیں، وہاں نفسیاتی اُلجھنوں کو بھی جنم دیا، رواروی کو رواج دیا۔ فارسی غزل سے ہوتی ہوئی جو محبت ہماری غزل میں آن داخل ہوئی، اس کو محض ایک روایت یا نقالی نہیں کہا جا سکتا کہ یہ ایک انسانی تجربہ ہے جو ہر دور میں مختلف رہا ہے۔ اس میں مختلف عوامل دخیل رہے ہیں۔ میر کا عشق، غالب کا عشق، فراق کا عشق اور پھر ہمارے قریب کے عہد میں ناصر کاظمی کا عشق ۔۔۔…

Read More

باکمال شاعر،ادیب،نغمہ نگار،صحافی اورمترجم: سید یزدانی جالندھری ۔۔۔ سید ماجد یزدانی

باکمال شاعر،ادیب،نغمہ نگار،صحافی اورمترجم: سید یزدانی جالندھری (تیسویں برسی پر خصوصی تحریر) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یزدانی جالندھری اردو میں جدید کلاسیکی روایت کے ترجمان شاعر تھے۔ یزدانی جالندھری (1915ء-1990ء) کی ولادت پنجاب کے ادب خیز شہر جالندھر کے گیلانی سادات گھرانے میں ہوئی۔ ان کا خاندانی نام ابو بشیر سیّد عبدالرشید یزدانی اور والد کا نام سیّد بہاول شاہ گیلانی تھا جو محکمہ تعلیم میں صدر مدرس تھے. ابتدائی تعلیم جالندھر میں حاصل کی۔ تقسیمِ برِصغیر سے پہلے ہی ان کا خاندان منٹگمری (ساہیوال) منتقل ہو گیا اور یزدانی وہاں سے مزید تعلیم…

Read More

عبد الحمید عدم ​ ۔۔۔۔۔ ہائے کس ، ڈھب کی بات ہوتی ہے

ہائے کس ، ڈھب کی بات ہوتی ہے گیسو و لب کی بات ہوتی ہے جانِ من! کب کا ذکر کرتے ہو جانِ من! کب کی بات ہوتی ہے آپ اکثر جو ہم سے کرتے ہیں وہ تو مطلب کی بات ہوتی ہے آؤ ،تھوڑا سا نور لے جاؤ ماہ و کوکب کی بات ہوتی ہے جب بھی ہوتا ہے دن کا ذکر عدم ساتھ ہی شب کی بات ہوتی ہے​ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مجموعہ کلام: بطِ مے مطبوعہ: اپریل ۱۹۵۷ء کتاب گھر، امرتسر

Read More

عبدالحمید عدم ۔۔۔۔ وہ جو اُس آنکھ کی کہانی ہے

وہ جو اُس آنکھ کی کہانی ہے لہر ہے، گیت ہے، جوانی ہے غم اگر دِل کو راس آجاۓ شادمانی ہی شادمانی ہے حادثہ ہے کہ تیری آنکھ کا بھی رنگ، اے دوست! آسمانی ہے ہاۓ تقریر اُن نگاہوں کی جن کا ٹھہراؤ بھی روانی ہے کیسا پرلطف ہے یہ ہنگامہ کیسی دلچسپ زندگانی ہے جو الم ہے وہ اتفاقی ہے جو خوشی ہے وہ ناگہانی ہے آؤ، پُھولوں کی آگ پی جاؤ دَورِ صہباۓ ارغوانی ہے دیکھنا زرد بیل کی جانب جیسے کوئی اُداس رانی ہے رنج سے عِشق…

Read More

عبد الحمید عدم ….. ذہن گلزار ہو گیا ہوگا

ذہن گلزار ہو گیا ہوگا باغباں یار ہو گیا ہوگا بات، سرکار! بن گئی ہوگی کام، سرکار! ہو گیا ہوگا پھول اُس زلف سے جدا ہو کر سخت بیمار ہو گیا ہوگا قافلہ اب نظر نہیں آتا تیز رفتار ہو گیا ہوگا لوٹتا کب تھا قیس گھبرا کر شہر بیدار ہو گیا ہو گا ایک ارماں تو تھا عدم دل میں سوکھ کر خار ہو گیا ہوگا …………….. مجموعہ کلام: بطِ مے مطبوعہ: اپریل ۱۹۵۷ء کتاب گھر، امرتسر

Read More