عبد الحمید عدم ​ ۔۔۔۔۔ ہائے کس ، ڈھب کی بات ہوتی ہے

ہائے کس ، ڈھب کی بات ہوتی ہے گیسو و لب کی بات ہوتی ہے جانِ من! کب کا ذکر کرتے ہو جانِ من! کب کی بات ہوتی ہے آپ اکثر جو ہم سے کرتے ہیں وہ تو مطلب کی بات ہوتی ہے آؤ ،تھوڑا سا نور لے جاؤ ماہ و کوکب کی بات ہوتی ہے جب بھی ہوتا ہے دن کا ذکر عدم ساتھ ہی شب کی بات ہوتی ہے​ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مجموعہ کلام: بطِ مے مطبوعہ: اپریل ۱۹۵۷ء کتاب گھر، امرتسر

Read More

عبدالحمید عدم ۔۔۔۔ وہ جو اُس آنکھ کی کہانی ہے

وہ جو اُس آنکھ کی کہانی ہے لہر ہے، گیت ہے، جوانی ہے غم اگر دِل کو راس آجاۓ شادمانی ہی شادمانی ہے حادثہ ہے کہ تیری آنکھ کا بھی رنگ، اے دوست! آسمانی ہے ہاۓ تقریر اُن نگاہوں کی جن کا ٹھہراؤ بھی روانی ہے کیسا پرلطف ہے یہ ہنگامہ کیسی دلچسپ زندگانی ہے جو الم ہے وہ اتفاقی ہے جو خوشی ہے وہ ناگہانی ہے آؤ، پُھولوں کی آگ پی جاؤ دَورِ صہباۓ ارغوانی ہے دیکھنا زرد بیل کی جانب جیسے کوئی اُداس رانی ہے رنج سے عِشق…

Read More

عبد الحمید عدم ….. ذہن گلزار ہو گیا ہوگا

ذہن گلزار ہو گیا ہوگا باغباں یار ہو گیا ہوگا بات، سرکار! بن گئی ہوگی کام، سرکار! ہو گیا ہوگا پھول اُس زلف سے جدا ہو کر سخت بیمار ہو گیا ہوگا قافلہ اب نظر نہیں آتا تیز رفتار ہو گیا ہوگا لوٹتا کب تھا قیس گھبرا کر شہر بیدار ہو گیا ہو گا ایک ارماں تو تھا عدم دل میں سوکھ کر خار ہو گیا ہوگا …………….. مجموعہ کلام: بطِ مے مطبوعہ: اپریل ۱۹۵۷ء کتاب گھر، امرتسر

Read More