باکمال شاعر،ادیب،نغمہ نگار،صحافی اورمترجم: سید یزدانی جالندھری ۔۔۔ سید ماجد یزدانی

باکمال شاعر،ادیب،نغمہ نگار،صحافی اورمترجم: سید یزدانی جالندھری

(تیسویں برسی پر خصوصی تحریر)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یزدانی جالندھری اردو میں جدید کلاسیکی روایت کے ترجمان شاعر تھے۔ یزدانی جالندھری (1915ء-1990ء) کی ولادت پنجاب کے ادب خیز شہر جالندھر کے گیلانی سادات گھرانے میں ہوئی۔ ان کا خاندانی نام ابو بشیر سیّد عبدالرشید یزدانی اور والد کا نام سیّد بہاول شاہ گیلانی تھا جو محکمہ تعلیم میں صدر مدرس تھے. ابتدائی تعلیم جالندھر میں حاصل کی۔ تقسیمِ برِصغیر سے پہلے ہی ان کا خاندان منٹگمری (ساہیوال) منتقل ہو گیا اور یزدانی وہاں سے مزید تعلیم کے لیے اسلامیہ کالج لاہور آ گئے جہاں ان کے دوستوں میں حمید نظامی،نسیم حجازی اور میرزا ادیب جیسے صحافی اور ادیب شامل رہے۔

شاعری کا شوق بچپن سے تھا۔پہلا شعر پانچویں جماعت میں کہا۔ ابتدا میں استاد تاجور نجیب آبادی سے اور بعد ازاں سلسلہ مصحفی کے استاد شاعر مولانا افسر صدیقی امروہوی سے مشورہ سخن رہا۔ برِصغیر پاک و ہند میں انہیں اپنے دور کا اْستاد شاعر کہا جاتا ہے۔1933ء میں ادبی جریدہ "غالب” کا اجرا کیا جس میں احسان دانش اور خاطر غزنوی اور عبدالحمید عدم ان کی معاونت کرتے تھے۔ کالج کی تعلیم کے بعد کچھ عرصہ بمبئی کی فلم انڈسٹری میں گزارا جہاں ان کی دوستی ساحر لدھیانوی سے رہی۔ اس دور کے ان کے ادبی دوستوں میں کیفی اعظمی اور جاں نثار اختر کے نام بھی شامل ہیں۔ اسی دوران انہیں خوشتر گرامی کے رسالہ”بیسویں صدی” کی ادارت کا موقع بھی ملا۔ قیام پاکستان کے بعد یزدانی جالندھری پہلے کراچی مقیم رہے جہاں صہبا لکھنوی کے ادبی مجلہ "افکار” کی مجلسِ ادارت کے رکن رہے۔ اور چند فلموں کے لیے گیت اور مکالمے بھی لکھے۔ فلم کے لیے مہدی حسن نے جو پہلا گیت ریکارڈ کروایا وہ کراچی میں پاکستانی فلم ’’ شکار‘‘ کے لیے تھا۔ شاعر یزدانی جالندھری کے لکھے اس گیت کی دْھن موسیقار اصغر علی، محمد حسین نے ترتیب دی تھی۔ گیت کے بول تھے: ’’ نظر ملتے ہی دل کی بات کا چرچا نہ ہو جائے‘‘۔ اسی فلم کے لیے انہوں نے یزدانی جالندھری کا لکھا ایک اور گیت ’’میرے خیال و خواب کی دنیا لئے ہوئے۔ پھر آگیا کوئی رخِ زیبا لیے ہوئے‘‘ بھی گایا تھا۔ساٹھ کے عشرے میں کراچی سے مستقل طور پر لاہور منتقل ہو گئے۔ یہاں وہ ماہنامہ "نیا راستہ”، "امدادِ باہمی”،” انقلابِ نو”،”محفل”، "اداکار” اور ” اردو ڈائجسٹ” کے علاوہ روزنامہ "سیاست” کے ادارتی عملہ میں بھی شامل رہے۔ یزدانی جالندھری "ادارہ ادب” کے سیکریٹری اور پاکستان رائٹرز گلڈ کے فعال رکن رہے۔ ان کی تخلیقات محفل ، فنون ، نقوش ، تخلیق ، شام وسحر ، افکار اورپنج دریا جیسے معیاری ادبی جراید میں جگہ پاتی تھیں۔ ادارہ ادب ، مجلسِ شمعِ ادب ، مجلسِ سیرت اور ریڈیو پاکستان لاہور کے مشاعروں میں بھی شرکت کرتے تھے۔ یزدانی کے دوستوں میں طفیل ہوشیار پوری ، انجم رومانی ، شہرت بخاری ، عبدالحمید عدم ، ایف۔ڈی۔گوہر ، شرقی بن شایق ، عبدالرشید تبسم ، تبسم رضوانی اورساغر صدیقی کے نام قابلِ ذکر ہیں۔ "۔ان کے شعری مجموعوں میں ساغر انقلاب – 1930ء (رباعیات)،صبحِ سعادت-1987ء(نعتیہ مثنوی)، تورات دل-1991ء ( غزلیات )، توصیف خیرالبشر – 1992ء( نعتیہ شاعری)شامل ہیں۔یزدانی صاحب نے ذاتی شہرت و مفاد سے بالا تر ہو کرعمر بھر خاموشی سے اور اخلاص سے گلستانِ ادب و صحافت کی آبیاری کی۔معروف صحافی اور ادیب جناب حفیظ ظفر لکھتے ہیں کہ جس شاعر کی غزل میں ہمیں بہت سے رنگ ملیں ، خاص طور پر نغمگی اور رچائو بھی ہوتو اس شاعر کی انفرادیت سے کسی کو انکار نہیں ہوسکتا ۔ یہی بات بیسیویں صدی کے اہم شاعر یزدانی جالندھری کے بارے میں بھی کہی جاسکتی ہے ۔ ویسے تو وہ فلمی نغمہ نگار ، مکالمہ نگار اور سکرین رائٹر بھی تھے لیکن انہوں نے ایک شاعر کی حیثیت سے بھی اپنے آپ کو منوایا ۔ ان کے کلام میں ہمیں کلاسیکل شاعری کی بڑی خوبصورت جھلکیاں ملتی ہیں ۔ وہ روایت کو ساتھ لے کر چلتے ہیں مگر پھر اپنی قوت متخیلہ سے اپنی شاعری کو ایک دلکش رنگ سے مزین کردیتے ہیں ۔ وہ فنی لحاظ سے بھی بڑے پختہ شاعر تھے ۔ فلم کے حوالے سے بھی ان کی خدمات یادگار ہیں ۔ وہ 1938ء میں’’گلستان‘‘ لاہور کے ایڈیٹر تھے۔پھر وہ سید عطاللہ شاہ ہاشمی کے ہمراہ ممبئی چلے گئے۔ 1956ء تک ممبئی اور دہلی میں رہے۔ وہ ہفت روزہ ’’اداکار‘‘ممبئی کے ایڈیٹر کی حیثیت سے کام کرتے رہے۔1945 میں انہیں فلم ’’طلسمی دنیا‘‘ کے نغمات لکھنے کا موقع ملا۔ سید عطا اللہ شاہ ہاشمی نے فلم ’’کنیز ‘‘ شروع کی تو اس کے مکالمے یزدانی جالندھری نے تحریر کئے۔ وہ اس فلم کے معاون ہدایتکار بھی تھے جبکہ اس فلم کی ہدایات کے خورشید نے دی تھیں۔ اس کے بعد انہوں نے فلم ’’خوفناک آنکھیں‘‘ اور طلسمی خنجر‘‘ کے مکالمے لکھے۔ قیام پاکستان کے بعد ساحر لدھیانوی لاہور سے ممبئی چلے گئے۔ یزدانی جالندھری پہلے ہی وہاں موجود تھے۔ انہوں نے ہی ساحر لدھیانوی کو ممبئی کے فلمی حلقوں میں متعارف کرایا۔ یزدانی جالندھری اس وقت انجمن ترقی پسند مصنفین کے صدر تھے جس میں ان کے ساتھ کیفی اعظمی، مجروح سلطان پوری اور جانثاراختربھی تھے۔ ساحر لدھیانوی بہت جلد ممبئی کے فلمی حلقوں میں مقبول ہوگئے او انہوں نے اس پر ہمیشہ یزدانی جالندھری کا شکریہ ادا کیا۔ اس کے بعد یزدانی جالندھری ممبئی سے پاکستان آگئے اور پھر واپس نہ گئے۔ ساحر لدھیانوی نے ممبئی سے ان کو بہت خطوط لکھے اور کہا کہ وہ ممبئی واپس آجائیں کیونکہ یہاں ان کی بہت ضرورت ہے لیکن وہ واپس نہ گئے۔ یہ یزدانی جالندھری ہی تھے جنہوں نے ریاض شاہد ، رزاق قیصر اور سعید ساحلی کو فلمی صنعت میں متعارف کرایا۔ یزدانی جالندھری نے ایک بار بتایا تھا کہ بھارت میں ان کی ایک فلم کی موسیقی علائوالدین نے دی تھی۔ ممبئی میں ان کی آغا طالش کے ساتھ بھی گہری دوستی رہی۔ یزدانی صاحب1956ء کو آغا طالش کے ساتھ ہی پاکستان آئے تھے۔ انہوں نے سرت چند چیٹر جی کے مشہور ناول ’’دیوداس‘‘ کا پہلی بار بنگالی سے اردو میں ترجمہ کیا تھا جس پر بھارت میں 1935ء میں فلم ”دیوداس” بنائی گئی۔پھر 1955ء میں بھی ”دیوداس” بنی جس کے ہدایت کاربمل رائے تھے۔ رابندر ناتھ ٹیگور کے بنگالی ناول ’’گورا ‘‘کا ترجمہ بھی انہوں نے کیا۔ اس کے علاوہ انہوں نے لیوٹالسٹائی کے افسانوں کا بھی ترجمہ کیا۔ بقول ڈاکٹر انور سدید مرحوم بنگالی مصنفین کو اردو ادب میں یزدانی جالندھری نے متعارف کرایا۔یزدانی صاحب کی کتابوں میں ’’توصیف ، صبح سعادت، یاران نو، الجھن، دیہاتی سماج، حسن پرست اور آوارہ‘‘ شامل ہیں۔ یزدانی جالندھری نے جن فلموں کے سکرین پلے اور مکالمے لکھے ان میں مذکورہ بالا فلموں کے علاوہ ’’یہ ہے دنیا ، کسان، آزادی، الزام، شکار، بارہ بجے اور نتیجہ‘‘ شامل ہیں۔ان کی شاعری میں سادگی اور سلاست کا عنصر بہت نمایاں ہے۔یزدانی جالندھری کا انتقال 23 مارچ 1990ء کو لاہورمیں ہوا۔

Related posts

Leave a Comment