دریچے کی آنکھ سے ۔۔۔ خالد علیم

دریچے کی آنکھ سے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس نے پورا زور لگا کر اپنی دونوں کہنیاں بستر پر ٹکائیں ۔ کہنیوں کے بل دائیں کندھے کوبستر پر جھکا کر اپنا سر تکیے کی طرف موڑا اور آہستہ آہستہ پائوں کو کھینچتا ہوا بستر پر لے آیا۔ پھر نیم دراز حالت میں کمرے کی مغربی کھڑکی کو دیکھنے لگا۔ ٹوٹے ہوئے شیشے والے حصے سے باہر کا منظر نسبتاً صاف دکھائی دے رہا تھا۔ اجالا قدرے بڑھ گیا تھا مگر اسے یوں لگ رہا تھا جیسے یہ اجالا بھی اس کے ضمیر کے ظلمت کدے کو روشنی میں تبدیل نہیں کر سکتا، اس لیے کہ اُس نے تاریکی کی گہری کھائیوں میں اتنا وقت گزار لیا تھا کہ آسمان پر گردش کرتے سورج کی شعاعیں بھی اسے تاریک دکھائی دیتی تھیں۔ کوئی کرن بھی اُس کے ظلمت کدے میں باقی نہیں رہی تھی۔اس احساس نے اُسے اور بھی نڈھال کر دیا تھا۔
بستر سے بیت الخلا کا سفر اسے صدیوں کا سفر دکھائی دیتا تھا۔رات کی سیاہی میں ماضی کے دہکتے شعلے جیسے اُس کے پورے بدن کو جلا کر راکھ کر دینے والے تھے۔ اسے یوں لگتاجیسے وقت کا آہنی پنجہ اب اُس کی گردن دبوچنے والا ہے۔وہ خوف سے اپنی آنکھیں بند کر لیتا ۔ آنکھیں بند کرتے ہی اس کے ذہن میں تیرگی ناچ ناچنے لگتی تو وہ گھبرا کر پھر آنکھیں کھول لیتا اور وحشت سے در و دیوار کو تکنے لگتا۔
وقت کا آہنی پنجہ واقعی اس کی گردن کی طرف بڑھتا آ رہا تھا، اور وہ اس سے بے خبر نہیں تھا۔ اُسے معلوم تھا کہ اُس نے اپنے پُرعظمت ماضی کو خود اپنے پائوں سے ٹھوکرماری ہے۔ شروع شروع میں اُس کے ضمیر میں زندگی کی رمق موجود تھی اور اس نے اُسے ملامت بھی کیا تھامگر اُس نے ایک نہیں سنی تھی۔ شاید تعصب اور بدیسی وعدوں کی چکاچوند نے سب کچھ دیکھتے ہوئے بھی اُسے اندھا کر دیا تھا۔ اور اب ۔۔۔ رات کی تاریکی سے جھانکتے شیرکی دو سرخ آنکھوں کی آگ اس کے سینے میں الائو کی طرح اُترتی محسوس ہو رہی تھی۔
اس کے کمرے میں ہوا کا ایک سرد جھونکا داخل ہوا تو اُسے یوں لگا جیسے اس کاپورا بدن کسی نے برف کی سل پر ڈال دیا ہے۔ ایک لمحے کے لیے تو اُسے قدرے سکون محسوس ہوا، پھر ایک دم اس کا دل دہل گیا، جیسے کسی نے کمرے کی مغربی کھڑکی پر اپنا آہنی پنجہ مارا ہو۔آج صبح جب وہ سو کر اُٹھا تھا اور رفعِ حاجت کے لیے گھسٹتے قدموں کے ساتھ بیت الخلا کی طرف جانے لگا تھا تو اپنی خواب گاہ کی مغربی کھڑکی کا ایک شیشہ تڑخا ہوا ضرور پایا تھا مگر اپنی جگہ پوری طرح موجود تھا، لیکن جب وہ رفعِ حاجت کے بعد واپس آیا تو شیشہ اپنی جگہ نہیں تھا ، اور جب اس نے نیچے نظر دوڑائی تھی تو شیشے کے ٹکڑے فرش کے قالین پر بکھرے ہوئے دکھائی دیے تھے۔ اسے اپنے ہاتھ میں درد کی شدت کا احساس ہوا تو اس نے ہاتھ کو غور سے دیکھا۔ اس کے ہاتھ کی پوروں سے خون رسنے لگا تھا۔
نہ جانے کس حرام زادے کی شرارت ہے، وہ بڑبڑایا تھا۔ ’’رام داس!‘‘ اس نے پورازور لگا کر آواز دینی چاہی تھی مگر آواز اس کے گلے میں پھنس کر رہ گئی تھی۔’’کمبخت نے اپنا نام بھی بدل لیا۔ کتنی آسانی سے وہ خداداد بن بیٹھا ہے۔خدا داد ۔۔۔ خداداد‘‘ ۔ وہ پھر بڑبڑانے لگا تھا۔’’ پوری سلطنت ختم ہو گئی، مگر خداداد سے پیچھا نہیں چھوٹا۔ نہ جانے کہاں سے آ گیاہے‘‘۔ اس نے گہری نگاہ سے قالین پر بکھرے ٹکڑوں کو دیکھا تھا ۔ اچھا ہوا کہ اس کی نظر پڑ گئی تھی ورنہ شاید اس کے پائوں بھی زخمی ہو جاتے۔اس نے اپنی دھوتی کے ایک پلو کو پکڑ کر پورے زور سے ہاتھ پر لپیٹ لیا تھا۔ اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہاتھا کہ یہ کیسے ہوا۔
’’میر ۔۔۔ میر ۔۔۔‘‘ اس کے دماغ میں ایک ادھورا نام بار بار جھٹکے کھانے لگا۔ وہ سمجھنے سے قاصر تھا کہ یہ نام اُسے کیوں نہیں یاد آ رہا۔ ’’شاید اس لیے کہ اس کو نرک میں گئے ہوئے گیارہ سال کا عرصہ گزر چکا ہے‘‘۔ اس نے خود کو مطمئن کرنا چاہا۔’’ گیارہ سال کے اس عرصے میں نرک کو بھی اس کا نام یاد نہیں رہا ہوگا۔وہ سلطان کی شہادت کے دن ہی نرک میں چلا گیا تھا ۔۔۔ وہی دن تھا جب وہ بھی اس جیسا کردار ادا کر رہا تھا۔ ہاں، وہی دن تھا جب اس نے اپنے دیوان ہونے کا فائدہ اُٹھا کر سلطانی فوج کو تین ماہ کی تنخواہیں وصول کرنے کے بہانے قلعے کی دیوار سے ہٹا دیا تھا اور بدیسی لٹیروں کے لیے سلطانی محل کا راستہ صاف کر دیا تھا۔‘‘
’’اور وہ میر قمر الدین ، نمک حرامی کے باوجود سلطان کی نوازش سے اپنے سابقہ عہدے پر بحال کر دیا گیا تھا ۔۔۔ اور پھر کم بخت عین وقت پر غداری کے صلے میں گرم کنڈہ کی جاگیر لے کر جذام کے مرض سے مر گیا۔ کتنا وحشت ناک مرض تھا ۔۔۔ میر عالم کا آزار ۔۔۔کم بخت حیدرآباد کا میر عالم بھی تو اس مرض سے ہلاک ہوا تھا۔ بے نصیب ۔۔۔ خود تو مر گیا مگر اس مرض کو اپنے نام کا آزار دے گیا ۔۔۔ اور ۔۔۔ غلام علی لنگڑا بھی کیا فتنہ تھا ۔۔۔ ترکی گیا تو ترکی بہ ترکی ترکوں کو لاجواب کر دیا۔ واپس آیا تو چپکے چپکے سلطانی عمارت کی بنیادوں سے دیمک کی طرح چمٹ گیا ۔۔۔ اور ۔۔۔ اور ایک اور میر ۔۔۔ کیانام تھا اُس کا؟‘‘… اس کا دماغ پھر اس نام کو سوچنے لگا اور دماغ ۔۔۔ اس کا ساتھ دینے سے پھر انکاری تھا۔ ’’شاید ۔۔۔ شاید میر جعفر، وہ بنگال کا نمک حرام، ننگِ خاندان ۔۔۔مگر یہاں بنگال کا کیا ذکر ۔۔۔ شاید اس کے دماغ نے پلٹا کھایا ہے۔ یہ میر تو کوئی اور تھا، جس نے قلعے کا آہنی دروازہ کھولنے کے بجاے بندکر دیا تھا ۔۔۔ اچھا ہوا یہ سارے خبیث مر گئے اور وہ ۔۔۔  اپنی اور اپنے ہم مذہبوں کی رسوائی کا تماشا دیکھنے کے لیے ابھی تک زندہ ہے۔ مگر زندہ بھی کیسا ۔۔۔ جیسے اپنی ہی لگائی ہوئی چتا کا مردہ ۔۔۔ اس نے پہلو بدلا اور مغربی کھڑکی کی جانب کرب آمیز نگاہ سے دیکھنے لگا۔ایک بار پھر بدن میں شدید دکھن کا احساس بیدار ہو گیا تھا۔کیانام تھا اُس کا ؟‘‘ وہ دماغ پرزور دینے لگا۔’’ شاید میر ۔۔۔ اس نے زورسے آواز دی ۔۔۔
’’رام داس ۔۔۔ خدا داد!‘‘ ۔۔۔خاموش جواب کی صورت وہ کتنی دیر سناٹے کے عالم میں بیٹھا رہا۔
گیارہ سال کے عرصے میں اس کے دل و دماغ پر پچھتاووں کے کتنے تازیانے برسے تھے، اسے اب خود بھی اندازہ نہیں تھا۔اس کے مردہ جسم کے بوجھ سے اس کے پائوں کی سوزش روز بہ روز بڑھتی جا رہی تھی۔ اسے یوں لگتا تھا کہ اس کے جسم اور دماغ کو وقت کے آہنی ہتھوڑے کی ضربیں توڑ کر رکھ دیں گی مگر ۔۔۔ اس کی سوچیں ابھی تک منجمد نہیں ہوئی تھیں۔طویل و عریض کوٹھی میں بظاہر آزاد مگر غلامانہ زندگی اور زندگی کی تمام ضروریات پوری ہونے کے باوجود مفلس و قلاش ہونے کااحساس اس کے دل و دماغ پر ہتھوڑے کی طرح برستا تھا۔ گیارہ سال پہلے اس کی کون سی ایسی خواہش تھی جوپوری نہ ہوئی تھی۔ کون سی ایسی آسایش تھی جواُسے حاصل نہ تھی۔ کو ن سا ایسا حکم تھا جسے دینے کے بعد اس کے سامنے والے سرخم نہ ہو جاتے تھے۔ اس کے اشارۂ ابرو سے اُس کے آگے دولت کے ڈھیر لگ جاتے تھے۔ ایک سے بڑھ کر ایک مندر تعمیر کردیے جاتے تھے۔ اعلیٰ سے اعلیٰ مورتیاں، سونے چاندی اور زر و جواہر سے آراستہ دیوتائوں کے مجسمے مندروں کی زینت بنادیے جاتے تھے۔ اعلیٰ درجے کی پوشاکوں اور لباسوں میں ملبوس ہندوئوں پر امراے سلطنت کا گمان ہوتا تھا اور یہ سب کچھ اس کی ذرا سی جنبشِ لب کا نتیجہ تھا ۔۔۔ اور اب ۔۔۔ یہ سب کچھ اس سے چھن چکا تھا ۔۔۔ پچھتاوے کی چتا بھڑکنے لگی ۔۔۔ ’’نہیں! ۔۔۔ اس نے خود اپنے ہاتھوں گنوا دیا تھا‘‘۔ اُسے یاد آیا ۔۔۔’’لنکا یوں ہی فتح نہیں ہو گئی تھی۔راون کے بھائی وبھیشن نے رام چندرجی کو لنکا کے سارے راز بتا دیے تھے، مگر یہاں رام چندرجی تو نہیں تھے، یہاں تو بدیسی لٹیروں کا سردار کارنوالس تھا اور اس کے بعدولزلی۔ کارنوالس اور ولزلی کو اس نے رام چندر جی کا مقام کیسے دے دیا۔ تُف ہے اس پر۔ وبھیشن نے تو صرف لنکا ڈھائی تھی، اس نے پورے ہندوستان کی سرزمین کا دروازہ بدیسی لٹیروں پرکھول دیا ۔۔۔ اور پھر لٹیرے بھی ایسے جو اس سرزمین کے تمام خزانے لوٹ کراپنے ملک کی مفلوک الحال جنتا کے قدموں میں ڈھیر کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ اسے کیا ملا، پورے ہندوستان کا سودا کرنے پر پانچ سالہ مہاراج کی دیوانی۔ ایسی دیوانی، جس کا اختیار اس کوٹھی سے باہر صرف نام کی حد تک ہے ۔۔۔اور چند ٹکے ۔۔۔ جن کی حیثیت سلطانی نوازشات کے آگے پرِ کاہ سے زیادہ نہیں۔‘‘ ۔۔۔ اس کا جی چاہا کہ وہ اپنے منہ پرتھوک دے۔ اگر آئینہ سامنے ہوتا تو شایدوہ ایسے ہی کر گزرتا۔
مغربی کھڑکی کا ٹوٹا ہوا شیشہ پھر اس کی نظر میں گھوم گیا ۔اس نے جی کڑا کرکے تھوک نگل لیا۔اس کا جی چاہا کہ ہمت کرکے اُٹھ جائے اورسلطان کے سامنے کورنش کے انداز میں جھک جائے۔ مگر وہ ایسا نہ کر سکا،اس کے بدن کا ایک ایک عضو ٹوٹ رہا تھا۔ اسے محسوس ہوا کہ جسم جگہ جگہ سے شکستہ ہو چکا ہے۔ زندگی کے پینسٹھویں سال ہی میں اس کا بدن اس کا ساتھ چھوڑنے پر تُلا بیٹھا تھا۔ اس نے کوشش کرکے منہ پر ہاتھ پھیرا تو جھریاں اس کے ہاتھ کی پوروں میں الجھنے لگیں۔
پچھلے دو تین سال کے عرصے میں بدیسی سرکار نے اس سے اپنی مہربانیوں کا ہاتھ کھینچ لیا تھا۔ گیارہ سال پہلے بھی بدیسی حکم رانوں پر اس کی نوازشوں کا کیا صلہ ملا تھا جواُس کے لیے باعثِ فخر ہوتا۔ کہاں شیرِ میسور کا وزیرِ مالیات اور کہاں پانچ سالہ بچے کا ماتحت اور دیوان ۔۔۔ اور بخشیش میں حاصل ہونے والی یہ زندان نما کوٹھی ۔۔۔ سلطانی ادب آداب سے محروم ۔۔۔ اس کی ذاتی شان و شکوہ سے یک سر عاری ۔۔۔ پھر انگریزوں کی عمل داری میں اس کے محدود اختیارات ۔ ایک ننگِ خاندان کو وزیرِ مالیات کے عہدے تک ترقی دینے والی سلطانی نوازشات اور بدیسی حکمرانوں کی بخشیش کا تقابل اس کے لیے سوہانِ روح بنتا جا رہا تھا۔ سوچ سوچ کر اُس کا دماغ شل ہونے لگتا تھا۔ اس کیفیت سے نکلنے کے لیے وہ خود کو مجرم قرار دینے کے بجاے دل کو تشفی دینے لگتا کہ اس نے جوکچھ بھی کیا ہے، اپنے ہم مذہبوں کے فائدے کے لیے کیا ہے، مگر یہ تشفی بھی اس کے دل کے لیے تسکین کا باعث نہ بن سکی۔اسے یوں لگا جیسے اُس کے اندر پچھتاوے نے اپنے قدم گاڑ لیے ہیں ۔ اس کا جسم روز بہ روزاس غم میں گھلتاجا رہا تھا۔
رات کی تاریکی بڑھتی جا رہی تھی اور اس کا ذہن جوسوچتے سوچتے اچانک منجمدہونے لگتا تھا، جب جاگتا تو کمرے کی مغربی کھڑکی کی طرف منتقل ہو نے لگتا۔ اس نے دردناک انداز میں پہلو بدلا اور مغربی کھڑکی کے اس پٹ کو دیکھنے لگا جہاں سے شیشہ ٹوٹا تھا۔ یہ پٹ اسے آسیب کی طرح دکھائی دے رہا تھا۔ دسمبر کی سرد رات تھی اور گاہے گاہے سرد ہوا کا تیز جھونکا اس کے بدن کو مزید سرد کرجاتا تھا۔ اس کا جی چاہا کہ بدن پر لحاف دوہرا کرکے اوڑھ لے، مگر اس کے بدن میں اتنی طاقت نہیں تھی کہ لحاف کو ذرا بھی حرکت دے سکے۔ اس نے قدرے زور سے پکارا ’’رام داس‘‘ مگر آواز کھرکھراہٹ کے انداز میں اس کے گلے میں پھنس کر رہ گئی۔ شاید وہ پھر غلط نام سے پکار رہا تھا۔ اس نے سوچا ، ’’اب کیا کہے؟ رام داس یا خداداد‘‘ ۔۔۔مگرخدا داد کے نام سے پکارنا اُسے براسا لگ رہا تھا،کیوں کہ اس نام کے ساتھ ہی اس کا ماضی جاگ اُٹھتا تھا۔ وہ ماضی جو کبھی اُس کا تھا، اور اب ۔۔۔ اس کے حال پر مغربی کھڑکی کے ٹوٹے ہوئے پٹ کا آسیب سوارتھا ۔
صبح یہ شیشہ پوری طرح موجود تھا۔ اگرچہ اس میں ذرا سی دراڑ تھی مگر ایسا نہ تھا کہ یہ خود بخود ٹوٹ کرگر جائے گا ۔
’’شاید کسی بچے کی شرارت تھی‘‘۔ وہ پھر بڑبڑایا: ’’بچے! ۔۔۔ اب تو وہ خود بھی ایک رینگتے بچے کی طرح ہے جو اپنا بوجھ بھی نہیں اُٹھا سکتا۔ ضرور کسی آسیب نے اس پراپنا پنجہ ماراہے۔ مگر یہ آسیب کیا ہے؟‘‘ وہ سوچنے لگا۔’’ کارنوالس یا ولزلی کابھوت تو نہیں ہو سکتا۔ اُن کی طرف تو اس نے دوستی کا ہاتھ بڑھایا تھا۔ مگر یہ دوستی اس نے کیوں کی؟ ۔۔۔ اپنے حال کو مزید تاب ناک کرنے کے لیے؟‘‘ خود سے کیے ہوئے اس سوال پر اس کا ذہن مائوف سا ہونے لگا۔’’نہیں، ایسا نہیں تھا۔ وہ تو ہندو راج کی بقا چاہتا تھا۔ ۔۔نہیں ، شاید یہ بھی نہیں۔ ہندو کی بقا تو سلطان کے دم قدم سے قائم تھی۔اس کے ہم مذہب ہندو، جنھیں تمام ایسی مراعات حاصل تھیں جو ہندو راج میں بھی نہ ہو سکتی تھیں۔ پھر ۔۔۔ وہ کیا وجہ تھی جس کے لیے اس نے سلطان سے نمک حرامی کی ۔۔۔ کیا وجہ تھی؟‘‘ ۔۔۔ اس کا ذہن اس تکرار میں الجھنے لگا تو اس نے پوری کوشش کرکے ’’رام داس،رام داس‘‘ کی رٹ لگانی شروع کر دی۔
جواب میں پھر وہی طویل خاموشی۔ اسے یوں محسوس ہوا جیسے مغربی کھڑکی سے تاریکی اپنے بھیانک انداز میں اس پر حملہ آور ہو رہی ہے۔
سوچتے سوچتے پھر اس کا دماغ شل ہونے لگا ۔۔۔ وہ اپنے آپ کوسنبھالا دینے کی کوشش کرنے لگا مگر دماغ رہ رہ کر ماضی کی کٹھنائیوں میں الجھنے لگتا تھا۔ اس نے بارہا ذہن کوجھٹکنے کی کوشش کی۔ وہ کچھ دیر کے لیے سونا چاہتا تھا تاکہ دماغ کو کچھ سکون مل سکے لیکن اُسے کامیابی نہیں ہو رہی تھی۔ آج لگتا تھا جیسے اس کے سارے زخم کھل گئے ہیں اور خون مسلسل اس کی رگوں سے باہر آنے پر تلابیٹھا ہے۔’’اچھا ہے‘‘ ۔۔۔ اس نے سوچا ۔۔۔’’ آج یہ سارا گندا خون اس کی رگوں سے بہہ جائے تو اچھا ہے۔‘‘
اسے رہ رہ کرترمل رائو پر تائو آ رہاتھا۔ ’’ کاش ترمل رائو اس کے سامنے آ جائے تو اس کی ہڈیاں پیس کرسُرمہ بنا ڈالے۔ لعنت ہوترمل رائو پر، جس نے اُسے اس حال تک پہنچا دیا ۔۔۔ترمل رائو ہی نے اُسے یہ راستہ دکھایا تھا۔ میسور کی معزول مہارانی کی معمولی سی خواہش پراس نے اپنا تن من دھن، سب کچھ لٹا دیا۔ خودکوبدیسی لٹیروں کے رحم و کرم پرچھوڑ دیا۔ کاش بدیسی لٹیرے اس ملک میں نہ آتے۔ کتنی عزت ملتی تھی اُسے سلطان کے دربار میں، جب وہ کورنش بجا لاتا تھا ۔۔۔مگرنہیں‘‘ ۔۔۔ اس نے اپنے احساس میں ترمیم کی۔’’سارا قصور ترمل رائو کا نہیں۔اسے سلطانی آداب میں اپنے مذہب کی تحقیر بھی محسوس ہوتی تھی۔ یہ احساس اس کے اندر روز بہ روز بڑھتاجارہاتھا اور پھرناسور بن گیا تھا۔وہ سلطان کی عظمت کا خاتمہ چاہتا تھا۔اس کے لیے وہ کسی مناسب موقعے کی تاڑ میں تھا ۔۔۔ اور پھر ایک دن اسے یہ سنہری موقع ہاتھ آ ہی گیا۔ اس نے سلطان اور فرانسیسیوں کے درمیان ہونے والے فوجی معاہدہ کی نقل ترمل رائو کو پہنچا دی اورترمل رائو  نے معزول رانی کے ایما پر بدیسی لٹیروں کے فوجی سالار جنرل ہارس کو پہنچا دی۔یہ جرم اُس سے یوں ہی سرزد نہیں ہوا تھا۔ وہ ایسا کرنے پر مجبور تھا۔ رنگا سوامی مندر کی گھنٹیوں کی آواز ہر وقت اس کے کانوں میں گونجتی رہتی تھی۔‘‘
ذرا سی دیر میں ترمل رائو پر اُس کا تائو کم ہو گیا۔ ’’اس کو کیا ملا، اس سے تو بدیسی لٹیروں نے صرف وعدے ہی کیے تھے ۔ دیوان کا عہدہ تو خود اسے ملا تھا، ترمل رائو بے چارہ ابھی تک مدراس کی خاک چاٹتا پھر رہا ہے۔سلطان کے خلاف سازش میں شریک ہو کر اس نے معزول رانی کے خوابوں کی تعبیر کی کوشش کی تھی ۔۔۔مگر یہ تعبیر کیا تھی ۔۔۔ پانچ سالہ مہاراج اور حکم بدیسی لٹیروں کا۔ رانی تو بس دانت پیستی رہ گئی تھی۔‘‘
اس نے مغربی کھڑکی کو پھر غور سے دیکھا۔ رات کے اندھیرے میں باہر سے سرد ہوا کا کوئی نہ کوئی جھونکاکمرے میں داخل ہو جاتا تھا جو اس کے نحیف و ناتواں بدن کو لحاف اوڑھنے کے باوجود اُس کی دُکھتی رگوں کو چیرجاتا تھا۔ اس کے ساتھ ہی اس کے ضمیر کا بوجھ اُسے ایک پل بھی چین نہیں لینے دے رہا تھا۔ کرب انگیز سوچ کے سفر میں نہ جانے کتنی رات بیت گئی، اسے احساس ہی نہ ہو سکا۔ کہیں دُور سے موذن کی آواز اس کے کانوں میں پڑی۔ وہ اس آواز کوغور سے سننے لگا۔ سنتے سنتے اس کی آنکھیں بند ہونے لگیں اور اسے ایسے لگا جیسے کسی گہری وادی میں نیچے ہی نیچے اترتا جا رہا ہے۔اچانک اس کے قدم زمین کو چھونے لگے۔اس نے سامنے نظر دوڑائی تو دیکھا کہ سلطان ہاتھ میں تلوار لیے اس کے سامنے کھڑاہے۔ وہ گھبرا کر جلدی سے پیچھے مڑا۔ سلطان پھر اس کے سامنے آ کھڑا ہوا۔تلوار ہاتھ میں ہے مگر ہونٹوں پر ایمان افروز مسکراہٹ ہے۔مسکراہٹ دیکھ کر اس کا خوف ذراکم ہوا تو وہ سلطان کے سامنے کورنش کے انداز میں جھک گیا۔
’’پورنیا ۔۔۔!‘‘ سلطان کی آواز آئی۔
’’پورنیا حاضر ہے سلطان!‘‘ اس نے خود کو مجتمع کرتے ہوئے کہا۔
’’ولزلی سے کہنا، اب ہندوستان تمھارا ہے ۔۔۔ نہ ہندو کا، نہ مسلمان کا ۔۔۔ یہاں ڈیڑھ سو سال تک صرف انگریز کا راج ہوگا۔‘‘
اس نے دیکھا ، سلطان کے ہونٹوں پر وہی مسکراہٹ تھی۔ کچھ توقف کے بعد سلطان کی آواز پھر اس کے کانوں میں گونجی۔ ’’ڈیڑھ سو سال کے بعد انگریز ہندوستان چھوڑ کر خود چلا جائے گا۔ جانتے ہو کیسے؟‘‘ سلطان نے مسکراتے ہوئے سوال کیا۔
’’ک ک ۔۔۔ کے ۔۔۔ سے؟‘‘ اس نے ہکلاتے ہوئے پوچھا۔
’’ہندوستان اپنے غداروں کو پہچان لے گا۔‘‘
اُسے ایسے لگا جیسے سلطان کی آواز پوری وادی میں گونج رہی ہے۔ شرم سے اُس کی گردن جھک گئی۔ مشکل سے اُس نے سر اُٹھا کرسامنے دیکھا۔ سلطان شمشیر بدست فضائوں میں پرواز کررہا تھا اور چاروں طرف ایک ہی آواز تھی : ۔۔۔ ’’ہندوستان اپنے غداروں کو پہچان لے گا۔‘‘
یہ منظر دیکھ کر خو ف سے اُس کا بدن لرزنے لگا۔
’’پورنیا!‘‘ وہ گھبراہٹ کے انداز میں زور سے چیخا۔
’’جی سرکار!‘‘ پورنیا ہاتھ باندھے سامنے آ کھڑا ہوا۔
’’ہمیں بتائو! ہم نے سلطان سے نمک حرامی کیوں کی؟‘‘
’’جی سرکار!۔۔۔‘‘
’’کیا جی سرکار؟۔۔۔ہمیں بتائو ، سلطان ہم سے خفا کیوں ہے؟‘‘
’’جی سرکار! جان کی امان پائوں تو عرض کرتا ہوں۔‘‘ پورنیا تھرتھراتے لہجے میں گویا ہوا:
’’ہاں ہاں! بتائو ۔۔۔سچ سچ بتانا!‘‘
’’جی سرکار ! سچ بتائوں گا؟‘‘ پورنیاگڑگڑایا۔’’اگر جان کی امان پائوں تو ۔۔۔‘‘
’’امان دی جاتی ہے۔‘‘
’’جی سرکار !‘‘
’’پھروہی جی سرکار! جلدی کہو۔‘‘
’’سرکار! یہ مغربی دریچہ آپ دیکھ رہے ہیں؟‘‘
بستر پر پڑے ہوئے اس نے شدتِ کرب سے آنکھیں مغربی دریچے پر گاڑ دیں۔
’’ہاں ! پوری طرح دیکھ رہا ہوں۔‘‘
’’سرکار ! مگر آپ وہ نہیں دیکھ رہے جو میں دیکھ رہا ہوں۔‘‘
’’تم کیا دیکھ رہے ہو؟ ‘‘ وہ بستر پر پڑے پڑے چلانے کے انداز میں گویا ہوا۔
’’سرکار! اس دریچے کا ایک پٹ ٹوٹ گیا ہے،اور اب دوسرا پٹ بھی پوری طرح کھلنے والا ہے۔‘‘
’’مگریہ کیسے کھلے گا، جب تک کوئی اسے نہ کھولے؟‘‘
’’سرکار! پھر وہی جان کی امان ہو تو عرض کروں؟‘‘
’’کہوکہو! پہیلیاں نہ بجھوائو ۔‘‘ وہ قدرے نرم انداز میں بولا۔
’’سرکار! آپ جیسے اور بھی نمک حرام ابھی موجود ہیں۔‘‘
’’پورنیا!‘‘ وہ زور سے چیخا۔ اور پورنیا کا ہیولا اس کے سامنے سے غائب ہو گیا۔
اسے یوںمحسوس ہوا جیسے اچانک اس کا جسم کسی نے پھر گہرے پاتال میں پھینک دیا ہے اور وہ مسلسل ڈبکیاں کھاتے ہوئے نیچے سے نیچے گرتا چلا جا رہا ہے۔
کتنی ہی دیر وہ اسی حالت میں رہا ۔ اسے ہوش آیا تو اس کا پورا جسم شدتِ کرب سے لرز رہا تھا۔ اس نے اپنے آس پاس دیکھنے کی کوشش کی تو اسے معلوم ہوا ،وہ بستر سے نیچے پڑا ہے اور اس کا داہنا ہاتھ خون سے لت پت ہے۔ اس نے ہاتھ کوجنبش دی اور پوری قوت کے ساتھ اپنے داہنے پہلو کے ساتھ ٹکا دیا۔ خون مسلسل بہہ رہا تھا۔کچھ وقت یوںہی گزر گیا تو اس نے ہمت کرکے اپنے جسم کو حرکت دی ، پھر بائیں طرف کروٹ لے کر خون آلود ہاتھ کو بستر پر ٹکایا اور زور لگا کر اپنے آپ کوبستر پر گرا دیا۔اتنی کوشش میں اس کا سانس تیز تیز چلنے لگا تھا۔ کچھ دیر اس نے سانس بحال کیا اور پائوں جو ابھی تک زمین پر ٹکے ہوئے تھے، ان پر زور ڈال کر کھڑا ہونے کی کوشش کی مگر سوزشِ پا کی وجہ سے وہ کھڑا نہ ہوسکا اور دھم سے پیچھے بستر پر گر گیا۔ اسے ایسے لگا جیسے اس کا سانس اکھڑنے کوہے۔ وہ بستر پر یوں ہی پڑا رہا۔ پھر اس نے آنکھیں گھمائیں تو دیکھا کہ بستر بھی کئی جگہ سے خون آلود ہو گیا ہے۔ سرخ سرخ خون بستر پر پھیلے دیکھ کراُس کی وحشت جاگ اٹھی۔سوزشِ پا کے باوجود وہ دیوانگی کے عالم میں اُٹھا، پھر لڑ کھڑا کر نیچے فرش پر بچھے قالین پر گر گیا۔اس تگ و دَو میں خون تیزی سے اس کے ہاتھ سے بہتا ہوا قالین پر ٹپکنے لگا۔ قالین میں جذب ہوتا خون دیکھ کر اُس کی وحشت مزید بڑھ گئی۔ اسے محسوس ہوا کہ قالین سے آگ اُگلنے لگی ہے۔ وہ دیوانوں کی طرح چیخنے لگا۔
’’پورنیا، پورنیا ۔۔۔نمک حرام ۔۔۔ ہندوستان کی سرزمین کو ناپاک کرنے والے پورنیا! کہاں ہو تم؟ سامنے آئو ۔ دیکھو ہندوستان کی سرزمین مغربی دریچے کی وجہ سے خون آلود ہو چکی ہے…اور آگ سارے ہندوستان میں پھیلتی جا رہی ہے‘‘ وہ مسلسل چیختا چلا گیا۔ ’’میر ۔۔۔ میر ۔۔۔ ہاں ہاں وہ کذاب ، نام کا صادق، تم سے کم نہیں تھا ۔۔۔ اور تم ۔۔۔تم اُس سے کم نہیں تھے۔ تم دونوں اور تمھارے ساتھیوں نے درویش صفت سلطان، رحم دل سلطان، محبِ وطن سلطان سے غداری کی اور اپنا منہ کالاکیا۔ ‘‘
اس کی وحشت بڑھتی جا رہی تھی۔ وہ زور سے اپنا سینہ پیٹنے لگا۔’’آئو دیکھو خداداد! … سلطنتِ خداداد کو مٹانے والا آج کس حال میں ہے۔سلطان نے ٹھیک ہی کہا تھا ۔۔۔ لوگ بدی کا کام ہنستے ہوئے کرتے ہیں لیکن خمیازہ روتے ہوئے بھگتیں گے۔ اور میں ۔۔۔ میں یہ خمیازہ بھگت چکا ہوں ۔۔۔نہیں ۔۔۔نہیں!‘‘ وہ چیخا، ’’سلطان کی روح ۔۔۔نہیں ۔۔۔ ہندوستان کی روح مجھے کہیں بھی چین نہیں لینے دے گی۔‘‘
یوں لگ رہا تھا کہ اس کی آواز آسمان کا سینہ چیر دے گی۔
اچانک دروازہ کھلا اور تیزی سے ایک شخص اندر داخل ہوا ۔ وہ پہلے ہی گھبرایا ہوا تھا۔ اس کی وحشت آمیز حالت کو دیکھ کر وہ مزید گھبراگیا۔
’’دیکھو رام داس ۔۔۔ دیکھو خدا داد! ۔۔۔ ہندوستان کی سرزمین خوں آلود ہے، اور یہ خون ۔۔۔ میرے اور میرے جیسے غداروں نے بہایا ہے۔یہ خون زندہ رہے گا مگر ہمارے جسموں کو نرک کی آگ بھی پوتر نہیں کر سکتی ۔۔۔ خدا داد ۔۔۔ خدا ۔۔۔دا ۔۔۔‘‘ اس کی آواز مدھم ہو گئی اور بستر پر اس کا جسم ڈھیر ہو گیا۔
’’پورنیا جی!‘‘ خدا داد نے اُسے پکارا۔ پھر اپناہاتھ اس کی نبض پررکھ کراُس کے چہرے کی جانب دیکھا۔ نبض سرد تھی اور اُس کی دونوں آنکھیں پتھر ہو چکی تھیں۔

Related posts

Leave a Comment