ماجد یزدانی ۔۔۔ عبدالحمید عدم کی شخصیت و شاعری

عبدالحمید عدم کی شخصیت و شاعری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مَیں مے کدے کی راہ سے ہوکر نکل گیا
ورنہ سفر حیات کا کافی طویل تھا

مرزا ادیب لکھتے ہیں: "عبدالحمید عدم اسلامیہ ہائی سکول بھاٹی گیٹ میں اْن کے ہم جماعت تھے۔ عدم انتہائی ذہین طالب علم تھے۔ اسلامیات کے حوالے سے ان کا علم بڑا وسیع تھا۔ مذہب کے معاملات میں نہایت محتاط تھے، اْن کی یہ جہت اْن کے کلام کی گہرائی میں نظر آتی ہے۔عدم نے ابتدا میں تخلص "اختر” رکھا، چھوٹی اور لمبی بحر میں شاعری کی، اْن کا تخیل دل کو چھو لیتا تھا، اْن کے دوستوں کا خیال تھا عبدالحمید عدم سادہ، سچا اورایماندار شخص تھا۔ اردو شاعری سمجھنے والے مرد و زن عدم کی مشق سخن کے دلدادہ اور دیوانے تھے۔عدم نے جو غزل اپنے لئے لکھی اس میں اْن کا مخصوص انداز جھلکتا ہے۔ روایتی موضوعات، قد دگیسو، گل و بلبل، شمع پروانہ، شیشہ و سنگ کا استعمال کیا ہے۔ کوئی نیا پن نہ ہونے کے باوجود یہ سامع کو نیا ذائقہ ضرور دے جاتے ہیں۔” 1960ء میں عدم نے عمر خیام کی رباعیات کا اردو ترجمہ کیا جسے بہت زیادہ مقبولیت حاصل ہوئی۔عدم اور خیام کے اندازِ شاعری اور فلسفہِ زندگی میں بڑی مماثلت پائی جاتی ہے۔

عبدالحمیدعدم 10 اپریل 1912ء کو گوجرانوالہ کے ایک گاؤں تلونڈی موسیٰ میں پیدا ہوئے، ابتدائی تعلیم گھر پر حاصل کی۔ اسلامیہ ہائی سکول بھاٹی گیٹ، لاہور سے میٹرک جب کہ ایف اے پرائیویٹ امیدوار کے طور پرپاس کیا اور ملٹری اکاونٹس میں ملازم ہو گئے۔ 1939ء میں دس سال ملازمت کرنے کے بعد عراق چلے گئے۔ وہاں جا کر ایک عراقی لڑکی سے شادی کر لی۔1941ء میں واپس آگئے اور(ایس اے ایس )محکمہ جاتی امتحان امتیازی پوزیشن میں پاس کیااور دوبارہ ملٹری اکاونٹس میں ملازمت پر بحال ہوگئے۔قیامِ پاکستان کے بعد اْن کا تبادلہ راول پنڈی کر دیا گیا۔وہ اپریل 1966ء میں اس عہدے سے ریٹائر ہوئے۔ عدم نے ریٹائرمنٹ کے بعد یعسوب کو اپنا اْوڑھنا بچھونا بنا لیا۔ کہا جاتا ہے کہ جب اْن کے پاس پیسے ختم ہو جایا کرتے تھے، تو وہ جلدی جلدی غزلیں لکھ کر اپنے ناشرکو دے کر اْس سے ایڈوانس معاوضہ لے آتے۔ اْن کی اکثر شاعری اسی طرح سے ہنگامی بنیادوں اور ضرورت کے تحت لکھی گئی ، تاہم جو غزلیں عدم نے اپنے لیے لکھیں ،اْن میں اْن کا مخصوص انداز جھلکتا ہے، جس میں ہلکا ہلکا سوز بھی ہے اور عشق و محبت کی دھیمی دھیمی آنچ بھی۔عدم نے اپنی شاعری میں اگرچہ روایتی موضوعات، خم و گیسو، گل و بلبل، شمع و پروانہ، شیشہ وسنگ کا استعمال ہی کیا، تاہم کوئی نیا پن نہ ہونے کے باوجود اْن کی شاعری سامع کو نیا ذائقہ ضرور دیتی ہیں اور ہم کہہ سکتے ہیں کہ عدم نے اپنی شاعری کے ذریعے روایتی غزل کو مزید آب دار کیا۔عدم بہت پرگو اور زْود گو شاعر تھے۔اْن کے درجنوں شعری مجموعے شائع ہو چکے ، جن میں : خرابات، نگار خانہ،چارہ درد اور رمِ آہو وغیرہ زیادہ معروف ہیں۔اْنھوں نے 1960ء میں معروف لبنانی نژاد شاعرعمر خیام کی رباعیات کا اْردو زبان میں ترجمہ کا کام بھی کیا، جسے خاصی مقبولیت حاصل ہوئی۔ممتاز شاعر اور ادیب جناب ناصر زیدی لکھتے ہیں کہ عبدالحمید عدم اور پنڈت ہری چند اختر، سال ہا سال کے بعد ایک مشاعرے میں اکٹھے ہوئے تو پنڈت ہری چند اختر، حضرت ِ عدم کو پہچان نہ سکے، کیونکہ وہ کبھی خاصے سِلم، سمارٹ رہے تھے اور اب بہت فربہ اندام ہو چکے تھے۔ عدم صاحب یہ جان کر کہ ہری چند اختر اْن کو پہچان نہیں سکے، اْن سے خود مخاطب ہوئے:’’پنڈت جی! مجھے پہچانا؟ مَیں عدم ہوں! ‘‘پنڈت ہری چند اختر کے مْنہ سے بے ساختہ یہ مصرعہ نکلا:

اگر تم عدم ہو تو موجود کیا ہے؟

عدم کا ضرب المثل شعر ہے:

یاد رکھو تو دل کے پاس ہیں ہم
بھول جاؤ تو فاصلے ہیں بہت

حقیقت یہ ہے کہ اْردو ادب میں، خصوصاً اْردو ادب کی مقبول ترین صنف ِ سخن غزل میں، ماضی قریب کے بے بدل شاعر، حضرت ِ عبدالحمید عدم کو ہر گز فراموش نہیں کیا جا سکتا! وہ ہر صاحبِ ذوق سخن شناس، سخن فہم، سخن دوست قاری کو ہر موسم میں اپنے ہونے کا احساس دلائے رکھتے ہیں۔ چھوٹی بحر اور سہل ِ ممتنع میں خوبصورت، منفرد اور دلکش غزل کہنے والا یہ شاعر بہت سے زبان زدِ عام شعروں کے ذریعے اہل ِ ذوق کے دِلوں کے آس پاس رہتا ہے۔ کون ہے جس کو عدم کا یہ شعر یاد نہ ہو:

شاید مجھے نکال کے پچھتا رہے ہوں آپ
محفل میں اِس خیال سے پھر آ گیا ہوںمَیں

اس رومانوی شاعرکی تاریخ ِ وفات کے حوالے سے ختلاف پایا جاتا ہے۔بعض کے مطابق عدم کی وفات10مارچ جب کہ بعض 4 نومبر1981ء کو اْن کا یوم ِوفات تسلیم کرتے ہیں۔عدم کی تدفین قبرستان ڈرائی پورٹ مغل پورہ میں کی گئی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Related posts

Leave a Comment