ماجد یزدانی ۔۔۔ عبدالحمید عدم کی شخصیت و شاعری

عبدالحمید عدم کی شخصیت و شاعری ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مَیں مے کدے کی راہ سے ہوکر نکل گیا ورنہ سفر حیات کا کافی طویل تھا مرزا ادیب لکھتے ہیں: "عبدالحمید عدم اسلامیہ ہائی سکول بھاٹی گیٹ میں اْن کے ہم جماعت تھے۔ عدم انتہائی ذہین طالب علم تھے۔ اسلامیات کے حوالے سے ان کا علم بڑا وسیع تھا۔ مذہب کے معاملات میں نہایت محتاط تھے، اْن کی یہ جہت اْن کے کلام کی گہرائی میں نظر آتی ہے۔عدم نے ابتدا میں تخلص "اختر” رکھا، چھوٹی اور لمبی بحر میں شاعری کی، اْن…

Read More

افضل خان کی غزل ۔۔۔ نوید صادق

افضل خان کی غزل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عہدِ جدید نے جہاں بہت سی آسانیاں پیدا کیں، وہاں نفسیاتی اُلجھنوں کو بھی جنم دیا، رواروی کو رواج دیا۔ فارسی غزل سے ہوتی ہوئی جو محبت ہماری غزل میں آن داخل ہوئی، اس کو محض ایک روایت یا نقالی نہیں کہا جا سکتا کہ یہ ایک انسانی تجربہ ہے جو ہر دور میں مختلف رہا ہے۔ اس میں مختلف عوامل دخیل رہے ہیں۔ میر کا عشق، غالب کا عشق، فراق کا عشق اور پھر ہمارے قریب کے عہد میں ناصر کاظمی کا عشق ۔۔۔…

Read More

بدل گئی ہے بہت آس پاس کی صورت (غلام حسین ساجد) ۔۔۔۔ نوید صادق

بدل گئی ہے بہت آس پاس کی صورت (دیباچہ: مجموعہ کلام "اعادہ”) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ستر کی دہائی اُردو غزل میں ایک انقلاب کی دہائی ہے۔ ثروت حسین، محمد اظہارالحق اور غلام حسین ساجد اِس انقلاب کے بڑوں میں سے نمایاں نام ہیں۔ثروت حسین نے ایک قلیل عرصۂ شعر میں اپنے انمول اور انمٹ نقوش ثبت کرنے کے بعد موت کو گلے لگا لیا، محمد اظہارالحق کچھ عرصہ بعد تقریباً خاموش ہو گئے۔ اب ان کی کبھی کبھار کوئی غزل نظر پڑتی بھی ہے تو یہی احساس ہوتا ہے کہ وہ ستّر…

Read More

باتیں ندیم کی (انٹرویو) ۔۔۔۔۔ حامد یزدانی

باتیں ندیم کی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ’’کتاب کبھی نہیں مر سکتی‘‘ (پاکستان کی معتبر ترین ادبی شخصیت جناب احمد ندیم قاسمی نے یہ انٹرویو، اپنی ۸۲ ویں سال گرہ پر ریکارڈ کروایاتھا) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حامد یزدانی: ندیم صاحب! آپ فرماتے ہیں: گو سفر تو دھوپ نگر کا ہے، یہ طلسم حسنِ نظر کا ہے  کہیں چھائوں قربِ جمال کی، کہیں فیضِ عشق کے سائے ہیں تو دھوپ چھائوں کے اِس سفر کے 82ویں پڑائو پر، جب احبابِ ندیم آپ کی سالگرہ کا جشن منا رہے ہیں، آپ خود کیا محسوس کر رہے ہیں؟…

Read More

قاضی حبیب الرحمن ۔۔۔۔۔۔ تلاشِ ذات میں اپنا نشاں نہیں ملتا

تلاشِ ذات میں اپنا نشاں نہیں ملتا یقین کیسا؟ یہاں تو گماں نہیں ملتا سفر سے لوٹ کے آنا بھی اک قیامت ہے خود اپنے شہر میں اپنا مکاں نہیں ملتا بہت دنوں سے بساطِ خیال ویراں ہے بہت دنوں سے وہ آشوبِ جاں نہیں ملتا جہاں قیام ہے اُس کا ، عجیب شخص ہے وہ یہ واقعہ ہے کہ اکثر وہاں نہیں ملتا گواہ سارے ثقہ ہیں ، مگر تماشا ہے کسی کے ساتھ کسی کا بیاں نہیں ملتا شعورِ جاں ، عوضِ جاں ، بسا غنیمت ہے کہ…

Read More