باتیں ندیم کی (انٹرویو) ۔۔۔۔۔ حامد یزدانی

باتیں ندیم کی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’کتاب کبھی نہیں مر سکتی‘‘
(پاکستان کی معتبر ترین ادبی شخصیت جناب احمد ندیم قاسمی نے یہ انٹرویو، اپنی ۸۲ ویں سال گرہ پر ریکارڈ کروایاتھا)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حامد یزدانی: ندیم صاحب! آپ فرماتے ہیں:

گو سفر تو دھوپ نگر کا ہے، یہ طلسم حسنِ نظر کا ہے
 کہیں چھائوں قربِ جمال کی، کہیں فیضِ عشق کے سائے ہیں

تو دھوپ چھائوں کے اِس سفر کے 82ویں پڑائو پر، جب احبابِ ندیم آپ کی سالگرہ کا جشن منا رہے ہیں، آپ خود کیا محسوس کر رہے ہیں؟
احمد ندیم قاسمی: میں جشن منانے کے حق میں کبھی نہیں رہا۔ یہ سارا سلسلہ میری بیٹی منصورہ احمد کا شروع کیا ہُوا ہے اور آج بھی اگر پوری دنیا میں میری سالگرہ منائی جا رہی ہے یا جشن منایا جا رہا ہے تو یہ سارا ’’کیا دھرا‘‘ بیٹی منصورہ کا ہے۔ اس لئے کہ ایسی سالگرہیں تو چپ چاپ گزر جایا کرتی ہیں، انسان کی زندگی میں اور میں نے بیٹی سے کہا بھی کہ اگر میں 85ویں برس تک زندہ رہا تو اس کا کوئی جواز پیدا ہو جائے گا، لیکن یہ نہیں مانی۔ میں اپنی سالگرہ منانے کے حق میں کبھی نہیں تھا، لیکن میرے محبت کرنے والے ، مجھے مجبور کر دیتے ہیں، اس لئے میری شمولیت ضروری ہو جاتی ہے۔

حامد یزدانی: ندیم صاحب! بیتے سفر پر نظر کریں تو اس میں کون کون سے ہم سفر، آپ کو اب بھی اپنے ہم نفس اور ہم قدم محسوس ہوتے ہیں؟
احمد ندیم قاسمی: ماضی میں جو لوگ میرے ساتھ تھے، جن سے مجھے پیار بھی تھا اور جنہیں مجھ سے پیار تھا، قریب قریب وہ سب دُنیا سے رخصت ہو چکے ہیں۔ ان میں منٹو تھے، کرشن چندر تھے، عصمت چغتائی تھیں، راجندرسنگھ بیدی تھے اور یہاں پاکستان میں اختر حسین جعفری تھے ۔۔۔ تو یہ سب لوگ تو چلے گئے، اب جو موجود ہیں، وہ سب مجھ سے جونیئر ہیں۔ ان جانے والے تمام دوستوں کی یادیں تو مجھے آتی ہیں اور ان دوستوں کے علاوہ، جو بزرگ لوگ تھے، ان میں مولانا عبدالمجید سالک کا نام نمایاں تر ہے، جنہیں میں شاعری میں اپنا اُستاد کہتا ہوں اور اُن کے مجھ پر بہت سے احسانات ہیں ۔۔۔ پھر مولانا غلام رسول مہر ہیں، اختر شیرانی ہیں اور اس طرح کی بے شمار شخصیات ہیں۔

حامد یزدانی: ندیم صاحب! آپ ہی کا ایک اور خوبصورت شعر ہے:

 اک نظر تُو نے جو دیکھا تو صدی بیت گئی
مُجھ کو بس اِتنا حسابِ مہ وسال آتا ہے

لیکن تقویمِ عشق سے باہر بھی تو ایک صدی مکمل ہو رہی ہے ۔۔۔ 20ویں صدی کے کنارے اور 21ویں صدی کی دہلیز پر کھڑے آپ کیا محسوس کرتے ہیں کہ ہمارا ادب بھی کیا نئی صدی میں ہم عصرعالمی ادب کے ہم قدم ہوگا؟
احمد ندیم قاسمی: میں سمجھتا ہوں کہ ہمارا جو ادب ہے، یعنی تخلیقی ادب، چاہے وہ شاعری ہو، چاہے افسانہ ہو، چاہے ناول ہو، تو کسی صورت میں وہ مغربی ادب سے پیچھے نہیں ہے۔ آگے تو میں نہیں کہوں گا، ہاں یوں کہا جا سکتا ہے کہ مغربی ادب کے شانہ بہ شانہ چل رہا ہے، خاص طور پر SHORT STORY پچھلی نصف صدی سے کچھ زیادہ عرصے کے دوران میں‘ جو مختصر کہانی اردو میں لکھی گئی ہے اور جس کے لکھنے والوں میں سے بعض کے نام میں نے ابھی لئے ہیں، ان کی کوئی بھی کہانی، کسی بھی بڑے مغربی افسانہ نگار کے کسی معروف افسانے کے مقابل رکھ کر دیکھئے تو وہ کسی بھی صورت کمزور نہ ہوگی۔ اسی طرح شاعری کا معاملہ ہے۔ تجربات تو ہوتے رہتے ہیں اور ہونے بھی چاہئیں، اس لئے کہ تازگی تجربات ہی سے آتی ہے، تاہم آج بھی ایسے ایسے نوجوان شعر کہہ رہے ہیں، نظمیں کہہ رہے ہیں، غزلیں کہہ رہے ہیں اور بالخصوص طویل نظمیں کہہ رہے ہیں، جن سے بڑی توقعات وابستہ کی جا سکتی ہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ اگلی صدی میں جب ہم داخل ہوں گے تو یہی نوجوان ہمارا بہت بڑا سرمایہ ہوں گے اور کہیں بھی کمزوری کا کوئی پہلو ہمارے تخلیقی ادب میں آپ کو محسوس نہیں ہوگا۔ اب اگر میں نام لوں تو  فہرست طویل ہو جائے گی۔ مثلاً میں سب سے پہلے نام لوں گا خالد احمدؔ کا اور نجیب احمدؔ کا اور اس کے بعد چلتے چلتے یہ فہرست بیٹی منصورہ احمد تک پہنچ جاتی ہے۔ منصورہ نے جو نظمیں لکھی ہیں، میرے خیال میں وہ مروّجہ اردو شاعری سے یک سر مختلف ہیں اور بڑے سلیس انداز میں ہیں۔ دراصل خود شاعرہ کا ذہن صاف ہے، اس لئے وہ جو کچھ کہتی ہے وہ بھی نہایت صفائی سے، نہایت خوبصورتی سے کہتی ہے اور اس کے علاوہ کراچی میں، اسلام آباد میں، پشاور میں اور کوئٹہ میں بہت سے لوگ اچھی شاعری کر رہے ہیں۔ میں چونکہ ایک ادبی رسالہ کا ایڈیٹر ہوں، اس لئے مجھے تھوڑا بہت اندازہ ہے کہ آج بھی ہمارے ہاں بہت اچھا شعر کہا جا رہا ہے اور یہ جو ایک مغالطہ ہے کہ ہمارا فن شاعری سٹیریوٹائپ ہو گیا ہے، خاص طور پر غزل، تو یہ درست نہیں۔ غزل کے بارے میں بعض لوگ کہتے ہیں کہ سب ایک سی غزلیں کہہ رہے ہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ پڑھنے والے غور سے نہیں پڑھتے۔ پڑھنے والوں کو دیکھنا چاہئے کہ ہر نوجوان شاعر، اور نوجوان شاعرسے میری مراد 50سال کی عمر تک کے شعراء ہیں، تو ہر نوجوان شاعر کا IDIOM دوسرے سے مختلف ہے، اس کا انداز اور اسلوب مختلف ہے۔ موضوعات اگر یکساں ہوں تو یہ بالکل الگ بات ہے۔ یہ تو ہونا بھی چاہئے کیونکہ جس عہد میں ہم زندہ ہیں، اسی عہد کے واقعات، اسی ماحول اور اسی کے گردونواح کے بارے میں شعر کہیں گے۔ تاہم یہ الزام نہیں ہے، یہ تو اچھی بات ہے کہ وہ اپنے عصر سے متاثر ہیں۔ 

حامد یزدانی: کیا آپ یہ نہیں سمجھتے کہ پاکستان میں خاص طور پر بعض نوجوان شعراء کے مجموعوں کی تعداد میں جس تیزرفتاری سے اضافہ ہو رہا ہے، معیار بھی اُسی تیزی سے گرتا جا رہا ہے؟
احمد ندیم قاسمی: غزل تو ہر دور میں کہی جاتی رہی ہے، میں پچھلی صدی کے آخری دنوں کے ’’گلدستے‘‘ دیکھتا ہوں تو ان میں کہیں داغ  نظر آجاتا ہے، کہیں کہیں امیرمینائی، باقی سب شعراء اب ایسے ہیں کہ ان کو کوئی بھی نہیں جانتا۔ یہی حال آج بھی ہے۔ یہ جو دھڑا دھڑ مجموعے آ رہے ہیں، ان میں سے 85-80 فی صد بے کار ہیں، یا جلد ختم ہو جائیں گے۔ یہی دو، چار پانچ سال کے بعد۔ یا خود ہی یہ جلدباز شعراء جب شعور کی منزل کو پہنچیں گے تو وہ محسوس کریں گے کہ انہوں نے غلطی کی۔ تاہم جب بھی کسی ملک کے تخلیقی ادب کا اندازہ کرنا مقصود ہو تو اس میں اعلیٰ معیار کے ادب کو شامل کیا جاتا ہے۔ جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ اعلیٰ معیار کا ادب ہمارے ہاں بھی لکھا جا رہا ہے۔

حامد یزدانی: نوجوان شعراء کے ہاں معیاری شاعری کے کم یاب ہونے کا سبب کہیں اصلاح کے ادارے کا ختم ہو جانا تو نہیں ہے کہ جس میں شاگرد، استاد سے مشورہ کرنا پسند کرتے تھے؟
احمد ندیم قاسمی: میرے خیال میں یہ جو استادی شاگردی کا قصّہ تھا، وہ ختم ہو گیا اور میں خوش ہوں کہ ختم ہو گیا۔ اس لئے کہ استاد شاگرد کے ذہن پر مسلّط ہو جاتا تھا اور جس انداز میں، جس رنگ میں استاد شعر کہہ رہا ہوتا تھا، شاگرد بھی وہی رنگ اختیار کرتا تھا۔ اِکاّ دکاّ مثال شائد کہیں اب بھی موجود ہو، تاہم اس سلسلہ میں میرا اپنا رویہ یہ ہے کہ جب کوئی نوجوان میرے پاس اپنا کلام لاتا ہے تو میں اس کے ہم سطح ہو کر ایک دوست کی حیثیت سے اسے مشورہ دیتا ہوں کہ اگر یوں ہو جاتا تو زیادہ بہتر ہوتا ۔۔۔ یہ ہونا چاہیے، اس لئے کہ اصلاح کی گنجائش ہر وقت ہوتی ہے اور ہمارے ہاں کے نوجوان شعراء اور ادبا کو اتنا وسیع القلب ہونا چاہیے کہ اگر کوئی سینئر آدمی مشورہ دے رہا ہو تو اس کو قبول کریں یا قبول نہیں کر سکتے تو اس کے بارے میں تعمیری انداز میں گفتگو کر لیں۔ ممکن ہے ان کی بات صحیح ہو اور مشورہ دینے والے کی بات درست نہ ہو، مگر ایک دم شاکی ہو جانا، گلہ مند ہو جانا، خفا ہو جانا مناسب نہیں ہے۔ اس سے تو فن آگے نہیں بڑھ سکتا۔

حامد یزدانی: ندیم صاحب! کہا جاتا ہے کہ الیکٹرونک میڈیا کے فروغ نے کتاب کو قاری سے اور قاری کو کتاب سے دُور کر دیا ہے۔ آپ عہدِ جدید کے اس مسئلہ کو کس نگاہ سے دیکھتے ہیں؟
احمد ندیم قاسمی: میں سمجھتا ہوں کہ کتاب نہیں مر سکتی۔ الیکٹرونک میڈیا کچھ بھی کر لے کتاب زندہ رہے گی ۔۔۔ جی ہاں، وہ کتاب جو ہاتھ میں آ جاتی ہے اور جسے آدمی بیٹھ کر یا لیٹ کر پڑھتا ہے اور اس سے محظوظ ہوتا ہے، وہ کتاب کبھی نہیں مر سکتی۔

حامد یزدانی: آپ نے دنیا کے مختلف ممالک کے دورے کئے ہیں، کون سا ملک آپ کو اچھا لگا اورکیوں؟
احمد ندیم قاسمی: میں نے زیادہ سفر تو نہیں کیا۔ بس یہی، ایک بار امریکہ گیا ہوں۔ ایک بار کینیڈا، دو تین بار لندن جانا ہوا۔ اس کے علاوہ جرمنی، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب وغیرہ بھی ادبی تقاریب اور مشاعروں کے سلسلے میں گیا ہوں۔ تو میں محسوس کرتا ہوں کہ ہم لوگ ان کے معیارِ شہریت سے بہت پیچھے ہیں۔ وہ صاف ستھرے انداز میں زندگی بسر کرتے ہیں۔ سڑکیں تو درکنار، ان کی گلیاں بھی اتنی کشادہ اور صاف ستھری ہیں کہ ہم یہاں تصور بھی نہیں کر سکتے۔ میں ادھر چین بھی جا چکا ہوں۔ یہ اس دور کی بات ہے جب انقلاب کے بعد جدید چین کا بالکل آغاز تھا۔ جب مائوزے تنگ نے چیانگ کائی شیک کو فارموسا کی طرف روانہ کر دیا تھا۔ ہم پاکستانی اخبارنویس ایک وفد کی صورت میں وہاں گئے تھے۔ وہاں کا نظم وضبط دیکھ کر میں تو حیران رہ گیا۔ مجال ہے کوئی شخص سڑک پر چل رہا ہو، سب فٹ پاتھ پر چلتے تھے۔ آپ تو خود لاہور کے رہنے والے ہیں۔ آپ نے ملاحظہ کیا ہوگا کہ ہم لوگ فٹ پاتھ چھوڑ کر سڑک پر چلنا باعثِ فخر سمجھتے ہیں اور اگر کوئی ہمیں روکے، ٹوکے تو اس سے خفا ہو جاتے ہیں۔

حامد یزدانی: پاکستانی شاعری اور افسانے کے ماضی، حال اور مستقبل کے حوالہ سے آپ کی باتیں خاصی حوصلہ افزا ہیں، لیکن اردو ادب کا کوئی کمزور پہلو بھی تو آپ کی نظر میں ہوگا جو اب تک توجہ طلب ہوگا ۔۔۔!
احمد ندیم قاسمی: ڈرامہ، ہمارے ہاں کمزور ہے اور اس کے علاوہ خودنوشت سوانح کا شعبہ بھی توجہ طلب ہے۔ خود نوشت ہمارے ہاں لکھی گئی ہے مگر جیسے لکھی جانی چاہئے تھی ویسے نہیں لکھی گئی کیونکہ خودنوشت میں سچ بولنا پڑتا ہے اور سچ بولنا بڑا مشکل کام ہے۔ قیام پاکستان سے پہلے جب میں ‘ادبِ لطیف’ کا ایڈیٹر تھا، میں نے خودنوشت دیکھی تھی، آصف علی کی، وہ دیکھ کر مجھے محسوس ہوا تھا کہ اُردو میں اچھی خودنوشت سوانح لکھنے کا آغاز ہو چکا ہے۔ مگر افسوس کہ یہ سلسلہ آگے نہیں بڑھ سکا۔ سفرنامے، البتہ خاصے زیادہ ہو گئے ہیں اور یہ بھی اچھی بات ہے کہ ان میں لکھنے والا اپنے تجربات کا اظہار کر دیتا ہے اور پڑھنے والا بھی بعض صورتوں میں ان سے لطف اٹھاتا ہے۔

حامد یزدانی: پاکستان میں تنقید کے شعبہ سے آپ کس حد تک مطمئن ہیں؟ اس کے بارے میں عمومی تاثر تو یہی ہے کہ ہماری تنقید ابھی تک شخصی تنقید کے دائرے میں قید ہے۔
احمد ندیم قاسمی: آپ کا خیال درست ہے۔ یہاں شخصی تنقید عام ہے یا اس کے علاوہ بھی اگر تنقید لکھی جا رہی ہے تو وہ کمزور ہے۔ شاعری، افسانہ نگاری اور ناول نویسی میں تو ہم بہت ترقی یافتہ ہیں لیکن تنقید میں ہم بہت پیچھے رہ گئے ہیں اور یہ بڑے افسوس کی بات ہے۔ اس کے مقابلے میں، ہمارے پڑوسی ملک ہندوستان میں لوگ تنقید اور تحقیق میں ہم سے بہت آگے ہیں۔ اگرچہ ہمارے ہاں بھی تحقیق ہو تو رہی ہے اور بعض بہت اچھے محقق موجود ہیں۔ مثلاً مشفق خواجہ جو ان دنوں یگانہ پر کام کر رہے ہیں، جیسے ڈاکٹر جمیل جالبی، ڈاکٹر وحید قریشی اور اِکاّ دکاّ اور بھی، مگر جس پائے کے محقق اور نقاد ہندوستان میں موجود ہیں، اس کا کوئی جواب نہیں۔ ہندوستان میں نقادوں کی ایک بہت بڑی تعداد ہے۔ حالانکہ مجموعی طور پر اردو کی جو وہاں حالت ہے، وہ ہمارے علم میں ہے، اس کے باوجود وہاں اس شعبہ میں بہت کام ہو رہا ہے۔ علی گڑھ یونیورسٹی میں اسلوب احمد انصاری ہیں، دہلی یونیورسٹی میں قمر رئیس ہیں، ڈاکٹر گوپی چندنارنگ ہیں، جو محقق بھی ہیں اور نقاد بھی اور سب سے بڑے محقق تو وہاں رشید حسن خان ہیں۔ میں ان کی تحقیقی کتابیں دیکھ کر حیرت زدہ رہ جاتا ہوں۔ سوچتا ہوں کہ اس شخص نے شائد زندگی بھرسوائے تنقید وتحقیق لکھنے کے اور کوئی کام ہی نہیں کیا۔ ہمارے ہاں کراچی میں جب اردو لغت کی پہلی جلد شائع ہوئی، اس زمانے میں اس کے انچارج ڈاکٹر ابواللیث صدیقی تھے۔ تو پروفیسر رشید حسن خان نے اس لغت پر تبصرہ لکھا اور اس کی ایسی تیسی پھیر دی اور کوئی شخص ایسا نہیں تھا جو کہتا کہ رشید حسن خان نے غلط کہا یا گمراہ کیا، اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ابواللیث صدیقی اس منصوبے سے علیحدہ ہو گئے اور فرمان فتح پوری ان کی جگہ آ گئے۔ انہوں نے بھی اپنی پوری کوشش کی، بہرحال کہنے کا مقصد یہ ہے کہ تنقید و تحقیق کا معیار، ہندوستان میں پاکستان سے کہیں بہتر ہے۔

حامد یزدانی: ندیم صاحب! کہتے ہیں کہ ترجمہ نگاری کے شعبے میں بھی ہمارے ہاں کوئی کام نہیں ہوا! آپ کے نزدیک، کس حد تک ضروری ہے یہ شعبہ۔۔۔؟
احمد ندیم قاسمی: بے حد ضروری ہے۔ اس لئے کہ سب لوگ تو انگریزی یا دیگر غیرملکی زبانیں نہیں جانتے۔ ہم لوگوں نے جو کچھ بھی حاصل کیا ہے، SHORT STORY کی صورت میں یا ڈرامہ کی شکل میں یا شاعری کے روپ میں، وہ انگریزی زبان ہی سے حاصل کیا ہے۔ ہمارا فرض ہے کہ ہم دوسری زبانوں کے اعلیٰ ادب کے تراجم بڑی خوش اسلوبی، سلیقے اور محبت سے سامنے لائیں۔ میں نے ایک دو ترجمے دیکھے ہیں، ولیم جیمز کے ناولوں کے، جو قرۃ العین حیدر نے کئے ہیں۔ اسی طرح منّو بھائی نے افریقی نظموں کے تراجم کئے ہیں۔ میں بھی تراجم کرتا رہا ہوں، اگرچہ وہ کتابی صورت میں سامنے نہیں آئے۔ اس شعبہ میں ایک عمدہ کوشش اسیر عابد نے کی ہے، دیوانِ غالب کو پنجابی میں منتقل کر کے۔ انہوں نے یہ کام اتنی خوبصورتی سے کیا ہے کہ جو شعر اردو میں ہمیں سمجھ نہیں آتا، وہ ہم پنجابی میں پڑھ کر سمجھ لیتے ہیں۔ میرے نزدیک یہ بہت بڑا کام ہے۔ ترجمہ کرنا، تخلیقی کام ہی کی طرح نہایت مشکل کام ہے۔ میں نے کسی زمانے میں بہت کوشش کی تھی، برائوننگ کی لَوسانیٹ کو اُردو کے قالب میں ڈھالنے کی، جو ہماری غزل کے بہت قریب ہیں۔ اس زمانے میں مَیں راولپنڈی جیل میں تھا۔ یہ ایوب خاں کا دَور تھا۔ جیل میں میرے ایک اور نظربند ساتھی پشتو کے شاعر ہمیش گل کے پاس ایک کتاب تھی، جس میں سانیٹ تھے۔ میں صبح سے شام تک وہ کتاب لے کر بیٹھا رہا اور ترجمہ کی کوشش کرتا رہا، لیکن شاعر کے خیال یا تصور تک ٹھیک طرح پہنچ نہیں پاتا تھا۔ چنانچہ میں نے یہ کوشش ترک کر دی۔ یہ جو یورپی زبانوں میں تراجم آپس میں ہو جاتے ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کا محاورہ ایک دوسرے سے بہت قریب ہے۔ ہم لوگوں کے لئے البتہ یہ بہت مشکل ہے۔ایڈورڈ فٹس جیرالڈ نے عمرِ خیام کی رباعیوں کے جو ترجمے کئے ہیں تو بس اپنی پسند کی ایک خاص صورت میں گھڑ دئیے ہیں اور جابہ جا اپنی طرف سے اضافے کرتے چلے گئے ہیں۔

حامد یزدانی: ندیم صاحب! آخر میں اپنا کچھ تازہ کلام عطا فرمائیے!
احمد ندیم قاسمی: ایک تازہ غزل کے تین چار شعر پیش کرتا ہوں:

سرتاپا صحرا ہوں اور خاصیّتِ دریا رکھتا ہوں
میں تو فصیلِ شب میں بھی روشن، دِن کا دریچہ رکھتا ہوں

شکر ہے دورِ رواں کے سفر میں میری اَنا محفوظ رہی
ٹھوکر پر ٹھوکر کھا کر بھی خود پہ بھروسہ رکھتا ہوں

میرے نقادوں کو بتائو، میرا بھٹکنا کھیل نہیں
دائیں بائیں گھوم آتا ہوں، سمت کو سیدھا رکھتا ہوں

میرا فرشتوں سے کیا ناتا، میری صفات بھی یکتا ہیں
میں لبِ گویا، دیدہء بینا، سوزِ تمناّ رکھتا ہوں

حامد یزدانی: سبحان اللہ، سبحان اللہ… بہت خوب! اس کلام اور گفتگو کے لئے بے حد نوازش!
احمد ندیم قاسمی: آپ کا بھی شکریہ!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Related posts

Leave a Comment