گولڈ فش وہ کسی بے روح لاشے کی طرح بالکل سیدھی لیٹی ہوتی۔ صرف وقفے وقفے سے جھپکتی پلکیں اس کے زندہ ہونے کا پتہ دیتیں ۔وہ شاذ ہی کروٹ کے بَل لیٹتی یا کروٹ بدلتی۔ کم از کم شازینہ نے اسے کبھی پہلو کے بل لیٹے نہیں دیکھا تھا۔ وہ جب بھی اس کے پاس گئی اُسے یونہی مردوں کی طرح بے حس و حرکت لیٹے ہوئے پایا۔ وہ ایک آرام دہ پرائیویٹ کمرے میں مقیم تھی۔ اُس کے کمرے میں ہر سہولت موجود ہونے کے علاوہ روزانہ تازہ…
Read MoreTag: Short story
محمد جواد ۔۔۔ اچھے لوگ برے لوگ
اچھے لوگ برے لوگ یقین کیجیے کرائے کے مکانوں میں دھکے کھانے والوں کی بھی اپنی ایک نفسیات ہوتی ہے یایوں کہیے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بن جاتی ہے ۔پکاکوٹھاڈال کر رہنے والے کچھ اور طرح کے لوگ ہوتے ہیں ۔وہ اضطراب ، وہ خانہ بدوشانہ قسم کامزاج اور وہ عجیب طرح کا عدم تحفظ بس وہی لوگ بھگتتے ہیں جوان تجربات سے گزرتے ہیں ۔میں یہ سب باتیں آپ سے اس لیے shareکر رہا ہوں کہ دوماہ قبل میں نے اپنی بیوی اور دوبچوں سمیت پھرنقل مکانی…
Read Moreخالد علیم ۔۔۔ ایک کہانی نئی پرانی
ایک کہانی نئی پرانی تو کیا تم سمجھتے ہو کہ تم نے کہانیاں لکھنی سیکھ لی ہیں ۔بہت خوب!۔۔۔ سچی بات تو یہ ہے کہ تمھاری اکثر کہانیوں میں تمھاری اپنی ہی دہرائی ہوئی باتیں ہوتی ہیں ۔ تھوڑ ا سا مرچ مصالحہ ڈال لیا ۔ کچھ نئے معنی پر لفظوں کی نئی ترتیب کا رنگ روغن چڑ ھا لیا اور سمجھ لیا کہ تم نے کہانی لکھ لی۔ تم نے کبھی غور ہی نہیں کیا کہ تم خود بھی ایک کہانی ہو۔ ایسی کہانی کہ اگر لکھی جائے ‘…
Read Moreمحمد جمیل اختر ۔۔۔ ڈوبنے والوں کے خواب
ڈوبنے والوں کے خواب اس ملک کے لوگوں کی نیندوں میں دکھ بھرے خوابوں نے بسیرا کر لیا تھا۔۔ ۔۔ لوگ ہر تھوڑی دیر بعد چیخنے چلانے لگ جاتے، گھر میں کوئی نہ کوئی فرد جاگتا رہتا تاکہ ڈر کر جاگ جانے والوں کو بروقت پانی پلا کر حوصلہ دیا جا سکے ورنہ عموماً ڈرے ہوئے لوگ گھر سے نکل کر باہر کی جانب دوڑ لگا دیتے اور ایسے میں کئی ایک حادثات بھی ہو چکے تھے۔۔ ۔ احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کے باوجود ہر صبح کا اخبار ایسے حادثات…
Read Moreسعادت حسن منٹو ۔۔۔ وہ لڑکی
سوا چار بج چکے تھے لیکن دھوپ میں وہی تمازت تھی جو دوپہر کو بارہ بجے کے قریب تھی۔ اس نے بالکنی میں آکر باہر دیکھا تو اسے ایک لڑکی نظر آئی جو بظاہر دھوپ سے بچنے کے لیے ایک سایہ دار درخت کی چھاؤں میں آلتی پالتی مارے بیٹھی تھی۔ اس کا رنگ گہرا سانولا تھا۔ اتنا سانولا کہ وہ درخت کی چھاؤں کا ایک حصہ معلوم ہوتا تھا۔ سریندر نے جب اس کو دیکھا تو اس نے محسوس کیا کہ وہ اس کی قربت چاہتا ہے، حالانکہ وہ…
Read Moreخزاں گزیدہ … رشید امجد
قیدی کو اس حالت میں لایا گیا کہ گلے میں طوق اور پاﺅں میں زنجیریں، زنجیروں کی چھبن سے پاﺅں جگہ جگہ سے زخمی ہوگئے تھے اور ان سے خون رس رہا تھا۔ طوق کے دباﺅ سے گردن کے گرد سرخ حلقہ بن گیا تھا جو کسی وقت بھی پھٹ سکتا تھا۔ قیدی طوق کے بوجھ اور پاﺅں کی زنجیروں کی وجہ سے سیدھا کھڑا نہیں ہوسکتا تھا۔ نیم وا کمر جھکائے جھکائے اُس نے میز کے پیچھے بیٹھے شخص کو خالی آنکھوں سے دیکھا، نہ کوئی سوال نہ کوئی…
Read Moreپنجرہ … رشید امجد
بیٹھے بیٹھے خیال آیا کہ اس دنیا کے اندر ایک اور دُنیا موجود ہے جس میں ہم جیسے لوگ رہ رہے ہیں اور ہم جیسے کام کررہے ہیں، ہم زادوں کی یہ دُنیا نظر تو نہیں آتی لیکن کبھی کبھی اپنا احساس ضرور کراتی ہے۔ ”تمہیں اس کا خیال کیسے آیا؟“ مرشد نے پوچھا ”بس یونہی، مجھے ایسا لگا جیسے جو کچھ میں کررہا ہوں، اسے پہلے بھی کرچکا ہوں۔“ وہ سوچتے ہوئے بولا۔ ”کبھی کبھی یوں لگتا ہے جیسے میں خود کو دہرارہا ہوں۔“ مرشد سوچ میں پڑگیا، تادیر…
Read Moreاکرم کنجاہی ۔۔۔ عصمت چغتائی
عصمت چغتائی عصمت سے قبل ، اُردو ادب میں پندرہ سے بیس ناول نگار خواتین موجود ہیں اور اُن کے پچاس ساٹھ ناولوں کا ذکر بھی تاریخِ ادب میں ملتا ہے مگرعصمت چغتائی اُن ناول نگاروں میں سے ہیں جنہوں نے اُردو میں پہلی بار متوسط گھرانے کی عورتوں کی جنسی گھٹن پر قلم اٹھایا ہے لیکن انہوں نے کہیں بھی اُن کے پس منظر میں سماجی عوامل کو نظر انداز نہیں کیا۔ اس لیے ان کے فن میں داخلیت، نفسیات کی پیچیدگیوں کے ساتھ گرد و پیش کے اثرات…
Read Moreاکرم کنجاہی ۔۔۔ رضیہ فصیح احمد
رضیہ فصیح احمد پاکستانی ناول نگار خواتین میں رضیہ فصیح احمد کا نام بھی اہمیت کا حامل ہے۔انہوں نے ڈرامے بھی لکھے ہیں۔وہ مراد آباد (متحدہ ہندوستان) میں ۱۹۲۴ء میں پیدا ہوئیں۔ تقسیم کے بعد کراچی منتقل ہو گئیں۔پہلا افسانہ ’’نا تمام تصویر‘‘ ۱۹۴۸ء عصمت کراچی میں شائع ہوا۔افسانوی مجموعے دو پاٹن کے بیچ، بے سمت مسافر، یہ خواب سارے، بارش کا آخری قطرہ، کالی برف کے نام سے اشاعت پذیر ہوئے۔یوں ان کی ابتدائی شہرت ایک افسانہ نگار کی حیثیت سے ہوئی۔وہ اپنے افسانوں کی بنیادی اپنے گردو پیش…
Read Moreاکرم کنجاہی ۔۔۔ واجدہ تبسم
واجدہ تبسم واجدہ تبسم ۱۶؍ مارچ ۱۹۳۵ء کے روز امراؤتی میں پیدا ہوئیں۔اُن کا پہلا افسانوی مجموعہ ’’شہرِ ممنوع‘‘ ۱۹۶۱ء میں شائع ہوا۔ بعد ازاں توبہ توبہ، آیا بسنت سکھی، اُترن، نتھ کا بوجھ، محبت، دھنک کے رنگ نہیں، جیسے دریا، گلی گلی کہانیاں، پھول کھلنے دو، نتھ کا غرور، چٹنی وغیرہ اشاعت پذیر ہوئے۔اُن کا ناول ’’کیسے کاٹوں رین اندھیری‘‘ ۱۹۷۶ء میں شائع ہوا۔’’پھول کھلنے دو‘‘ ۱۹۷۷ء، ’’زن، زر اور زمین‘‘ ۱۹۹۲ء۔ علاوہ ازیں قصاص اور نتھ کی عزت کے نام سے بھی اُن کے ناول شائع ہوئے۔’’بند دروازے‘‘…
Read More