حامد یزدانی… ایک تھر ہے اِدھر شِمال میں بھی

ایک تھر ہے اِدھر شِمال میں بھی میرا گھر ہے اِدھر شِمال میں بھی ایک وقفہ کہ زندگی کہیے مختصر ہے اِدھر شِمال میں بھی غم نوردی اُدھر ہی ختم نہیں دوپہر ہے اِدھر شِمال میں بھی ضبط کی مشرقی روایت کا کچھ اثر ہے اِدھر شِمال میں بھی کبھی حامد کی شاعری سنیے کچھ ہنر ہے اِدھر شِمال میں بھی

Read More

حامد یزدانی ۔۔۔ نعت رسول پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم

Read More

مولانا حامد علی خاں ۔۔۔ آشفتہ بیانی

Read More

حامد یزدانی ۔۔۔ بہار

بہار ۔۔۔ کیا ہوا؟ کیا بہار آ گئی؟ کھل اُٹھا زخمِ خوابِ ہنر! پھر دہکنے لگی ہے نظر! یاد روشن ہوئی اب کے کچھ اس طرح یاد روشن ہوئی گھر کے تاریک کونے چمکنے لگے میری البم میں ٹھہرے ہوئے موسموں کو خبر ہو گئی تیری مہکی ہوئی، سرخ تصویر پر ۔۔۔۔۔۔۔ پھول کس نے سجایا ۔۔۔۔۔۔۔ بجھے خواب سے پھوٹتی مرمریں کارنس سے اُترتی ہوئی بیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ روشن انگیٹھی سے ہوتی ہوئی کیوں بھلا ؟ میز تک آ گئی ہے ۔۔۔۔۔۔ گلابی کہانی میں رکھا ہُوا خواب ۔۔۔۔۔۔۔ کس…

Read More

خالی بالٹی ۔۔۔ حامد یزدانی

خالی بالٹی ۔۔۔۔۔۔۔ اب مجھے اُنہیں ڈھونڈنا ہے۔ سرکاری دورے کا آج آخری دن ہے۔ پچھلے چار دن میں مختلف رسمی ملاقاتوں اور باقاعدہ اجلاسوں میں کچھ یوں الجھا رہا کہ نہ تو قدم ڈھاکہ کی چند سرکاری عمارتوں کی سفید راہداریوں میں بھٹکتے تذبذب سے باہر نکل پائے اور نہ ہی ذہن اکڑی ہوئی کرسیوں کو کھینچ کرمستطیل میز کے قریب کرنے اور پھر گھسیٹ کر دُور کرنے کی دھیمی دھیمی گونج سے آزاد ہو پایا۔ ایک نو قائم شدہ ملک کے دارالحکومت میں مصروفیات کی ترتیب یا بے…

Read More

مکینک کہاں گیا ۔۔۔ محمدحامدسراج

مکینک کہاں گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔ دل پر لگنے والی چوٹ گہری تھی، من میں اترنے والا گھائو شدید تھا۔اس کی آنکھیں جھکی تھیں۔ پائوں کے انگوٹھے سے وہ زمین کرید رہاتھا۔آنکھیں اٹھانا اس تربیت کے خلاف تھاجواس کی طبیعت اورمزاج کا بچپن سے حصہ تھی۔وہ آنکھیں اٹھاکر باپ کے سامنے گستاخی کامرتکب نہیں ہوناچاہتاتھا۔باپ اسے تھپڑ دے مارتاتو وہ سہہ جاناآسان تھا ۔لیکن باپ کی آنکھ میں اُترا غصہ اس کے وجودکوریزہ ریزہ کر گیا۔اپنے وجودکے ریزے چن کردوبارہ سانس بحال کر کے وہ کہیں نکل جاناچاہتاتھا لیکن یہ اتنا آسان…

Read More

کہِیں اُس طرف بھی رات نہ ہو!٭ ۔۔۔ حامد یزدانی

کہِیں اُس طرف بھی رات نہ ہو!٭ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اِس طرف کمرا خاموش ہے۔ شام کا پردہ گرتا ہے اور وہ دھڑام سے بستر پرآ گرتا ہے۔ غیر ارادی طور پر ہی اس کا بایاں ہاتھ تپائی کی طرف بڑھتا ہے اور ٹیبل لیمپ روشن کر دیتا ہے۔ زیرو واٹ بلب کا زردی مائل اجالاگویا منہ چڑانے لگتا ہے، تپائی پر اونگھتی کتاب کا یا شاید اُس میں قید رات کا۔جانے کیا سوچ کر وہ کتاب اٹھا لیتا ہے اور جانے کیوں وہی صفحہ کُھلتاہے جس پر سِرے سے صفحہ نمبر…

Read More

وہ اور وہ ۔۔۔ حامد یزدانی

وہ  اور  وہ ۔۔۔۔۔۔ ’’اچھا، تم ہی بتائو مجھے ۔۔۔۔ جو نہیں ہے یا نہیں ہوا، کیا وہ ہو بھی نہیں سکتا؟‘‘ ’’بھئی، اشفاق صاحب کے افسانوں کی حدتک تو سب کچھ ہو سکتا ہے ۔۔۔کوئی نورانی بابا جی اچانک کہیں سے نمودار ہو کرجنگل میں بھٹکتے پیاسے کو ہدایت کاروح افزا پلا سکتے ہیں، ایک جیپ خود بخود سٹارٹ ہو کر اپنے مالک کے قاتل کو انجام تک پہنچا سکتی ہے ۔۔۔ مگر حقیقت اور افسانہ دو مختلف چیزیں ہیں‘‘۔ ’’کچھ ایسی مختلف بھی نہیں ہیں کہ جن کے…

Read More

حامد یزدانی ۔۔۔ ہیں کہیں دُور جُھمبر کی لے کاریاں، کچے صحنوں سے اُٹھتا دھواں ہے کہیں

ہیں کہیں دُور جُھمبر کی لے کاریاں، کچے صحنوں سے اُٹھتا دھواں ہے کہیں گاؤں کی شام ایسی مصورنےبھی پھر کسی کینوس پراتاری نہیں دل کے لاہورکی بُرجیاں، دیکھتے دیکھتے، زیرِ آبِ خیال آگئیں اب کے آنکھوں کا راوی چڑھا تو پس انداز یادوں کی کتنی ہی نظمیں بہیں کیسے کیسے نہ موسم مِرے گھر کی چھت سے گزر کر گماں ہو چکے، دوستو! دوپہر اک دسمبر کی، ٹھہری ہوئی آج بھی گیلی دیوار پر ہے وہیں صبح کی پھیکی پھیکی سی مرطوب حدّت، بدن سے چپکنے لگی ہم نشیں…

Read More

سائڈ ریکنگ پر ۔۔۔۔ حامد یزدانی

سائیڈ ریلنگ پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اداس لیمپ پوسٹ کی تھکی تھکی سی روشنی بجھے درخت کی سلگتی اوٹ میں کھلی کھلی مہک دھواں اُڑا کے لے گیا ہے کون چاند کو خبر نہیں اب اور کتنی بار پرس رات کا ٹٹولیے ہتھیلی پر سجے بلیک بیری پر ای میل اپنی کھولیے ! کہ نیٹ ورک آج خوب ہے کسی سے بات کیجیے کسی سے کچھ تو بولیے

Read More