خوشحال خان خٹک ۔۔۔ آئی جو میرے کان میں پازیب کی صدا

آئی جو میرے کان میں پازیب کی صدا گھبرا کے میری جاگ کھلی، اُٹھ کھڑا ہوا یہ حور ہے، پری ہے کہ انساں ہے، کیا ہے یہ؟ پہروں میں اپنے دل میں یہی سوچتا رہا کالی بھنویں کمانیں تھیں اور پلکیں تیر تھیں موتی کی طرح دانت تھے، ہونٹوں میں قند تھا اے بے بصر! نگاہ اٹھا کر نظارہ کر اُس نے عجب اَدا سے مجھے دیکھ کر کہا تو جانتا نہیں ہے مَیں وہ مہ جبین ہوں پیدا جواب جس کا زمانہ نہ کر سکا طالب ہیں میرے بوسہء…

Read More

خالی بالٹی ۔۔۔ حامد یزدانی

خالی بالٹی ۔۔۔۔۔۔۔ اب مجھے اُنہیں ڈھونڈنا ہے۔ سرکاری دورے کا آج آخری دن ہے۔ پچھلے چار دن میں مختلف رسمی ملاقاتوں اور باقاعدہ اجلاسوں میں کچھ یوں الجھا رہا کہ نہ تو قدم ڈھاکہ کی چند سرکاری عمارتوں کی سفید راہداریوں میں بھٹکتے تذبذب سے باہر نکل پائے اور نہ ہی ذہن اکڑی ہوئی کرسیوں کو کھینچ کرمستطیل میز کے قریب کرنے اور پھر گھسیٹ کر دُور کرنے کی دھیمی دھیمی گونج سے آزاد ہو پایا۔ ایک نو قائم شدہ ملک کے دارالحکومت میں مصروفیات کی ترتیب یا بے…

Read More

باتیں ندیم کی (انٹرویو) ۔۔۔۔۔ حامد یزدانی

باتیں ندیم کی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ’’کتاب کبھی نہیں مر سکتی‘‘ (پاکستان کی معتبر ترین ادبی شخصیت جناب احمد ندیم قاسمی نے یہ انٹرویو، اپنی ۸۲ ویں سال گرہ پر ریکارڈ کروایاتھا) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حامد یزدانی: ندیم صاحب! آپ فرماتے ہیں: گو سفر تو دھوپ نگر کا ہے، یہ طلسم حسنِ نظر کا ہے  کہیں چھائوں قربِ جمال کی، کہیں فیضِ عشق کے سائے ہیں تو دھوپ چھائوں کے اِس سفر کے 82ویں پڑائو پر، جب احبابِ ندیم آپ کی سالگرہ کا جشن منا رہے ہیں، آپ خود کیا محسوس کر رہے ہیں؟…

Read More

شکیل بدایونی ۔۔۔۔۔۔ جل کے اپنی آگ میں خود صورت پروانہ ہم

جل کے اپنی آگ میں خود صورتِ پروانہ ہم بن گئے ہم رشتہء خاکِ درِ جانانہ ہم دیکھیے کس راہ لے جائے سکوں کی جستجو چل تو نکلے ہیں بہ یک اندازِ بے تابانہ ہم حالِ دل، احوالِ غم، شرحِ تمنا، عرضِ شوق بے خودی میں کہہ گئے افسانہ در افسانہ ہم پارسائی خندہ زن، وعدہ خلافی طعنہ ریز ہائے کس مشکل سے پہنچے تا درِ مے خانہ ہم فرصتِ یک لمحہ دے دیتی جو فکرِ روز گار یاد کر لیتے کوئی بھولا ہوا افسانہ ہم جب جفا و جور…

Read More

کاروبار …… مصطفیٰ زیدی

کاروبار ۔۔۔۔۔۔۔ دماغ شل ہے ، دل ایک اک آرزو کا مدفن بنا ہوا ہے اِک ایسا مندر جو کب سے چمگادڑوں کا مسکن بنا ہوا ہے نشیب میں جیسے بارشوں کا کھڑا ہوا بےکنار پانی بغیر مقصد کی بحث ، اخلاقیات کی بےاثر کہانی سحر سے بےزار، رات سے بےنیاز لمحات سے گُریزاں نہ فِکرِ فردا  نہ حال و ماضی، نہ صبحِ خنداں ، نہ شامِ گِریاں پُکارتا ہے کوئی تو کہتا ہوں  اِس کو سن کر بھی کیا کرو گے اِدھر گزر کر بھی کیا ملے گا ،…

Read More

حسرت موہانی ۔۔۔۔ چپکے چپکے رات دن آنسو بہانا یاد ہے

چپکے چپکے رات دن آنسو بہانا یاد ہے ہم کو اب تک عاشقی کا وہ زمانا یاد ہے باہزاراں اضطراب و صدہزاراں اشتیاق تجھ سے وہ پہلے پہل دل کا لگانا یاد ہے بار بار اُٹھنا اُسی جانب نگاہِ شوق کا اور ترا غرفے سے وہ آنکھیں لڑانا یاد ہے تجھ سے کچھ ملتے ہی وہ بیباک ہو جانا مرا اور ترا دانتوں میں وہ اُنگلی دبانا یاد ہے کھینچ لینا وہ مرا پردے کا کونا دفعتاً اور ڈوپٹے سے ترا وہ منہ چھپانا یاد ہے جان کر سوتا تجھے،…

Read More

جوش ملسیانی ۔۔۔ چھوڑ دو غصے کی باتیں، اشتعال اچھا نہیں

چھوڑ دو غصے کی باتیں، اشتعال اچھا نہیں اتنا رنج، اتنا گِلہ، اتنا ملال اچھا نہیں خستگی بھی شرط ہے اُن کی نوازش کے لیے حال اچھا ہے اُسی کا جس کا حال اچھا نہیں گردشِ تقدیر کا چکر وہی جاری رہا! کیا مرے طالع میں، یارب! کوئی سال اچھا نہیں اب تمھاری چارہ سازی کا بھرم کھلنے کو ہے لوگ کہتے ہیں: مریضِ غم کا حال اچھا نہیں مر گئے جو راہِ اُلفت میں، مسیحا ہو گئے کون کہتا ہے محبت کا مآل اچھا نہیں بدنصیبی، بدنصیبی ہے مگر…

Read More